Article Image

عربوں کی عجیب اور دلچسپ حکایت

کہتے ہیں کسی جگہ ایک شخص رہتا تھا جس کے تین بیٹے تھے۔

اس شخص نے اپنے ان تینوں بیٹوں کے نام حجر رکھے ہوئے تھے۔ دن گزرتے رہے حتی کہ اسے مرض الموت نے آن لیا ۔ اس نے اپنے تینوں بیٹوں کو بلاکر وصیت کی کہ حجر کو وراثت ملے گی، حجر کو وراثت نہیں ملے گی اور حجر کو وراثت ملے گی۔ اس کے ساتھ ہی اس کی روح قبض ہوگئی ۔ یہ خود تو فوت ہوگیا مگر اپنے بیٹوں کو حیرت میں ڈال گیا کہ کیسے فیصلہ کریں کن دو حجر کو وراثت ملے اور اور کس ایک کو نہیں ملے گی۔ تینو نے فیصلہ کیا کہ شہر جا کر قاضی سے اپنا مسئلہ بیان کریں اور اس سے کوئی حل مانگیں۔

تینوں اپنے زاد راہ کے ساتھ شہر کیلئے عازم سفر ہوئے۔ راستے میں انہوں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو اپنی کسی

گم شده چیز کو تلاش کرتا پھرتا تھا۔ ان بھائیوں کے

پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کی اونٹنی گم ہوگئی ہے جسے وہ تلاش کرتا پھر رہا ہے۔

ایک حجر نے پوچھا کیا تیری اونٹنی ایک آنکھ سے کانی تھی۔ اس آدمی نے کہا ہاں ہاں ایسا ہی تھا۔

دوسرے حجر نے پوچھا کیا تیری اونٹنی ایک ٹانگ سے لنگڑی تھی تو اس آدمی نے جلدی سے کہا بالکل صحیح میری اونٹنی واقعی ایک تانگ سے لنگڑی تھی۔

تیسرے حجر نے اونٹنی کے مالک سے پوچھا کیا تیری اونٹنی کی دم کٹی ہوئی تھی تو اس نے خوشی سے کہا بالکل ٹھیک میری اونٹنی کی دم بھی کتی ہوئی تھی۔ بس اب جلدی سے بتا دو میری اونٹنی کہاں ہے،


تینوں حجر نے مل کر جواب دیا۔ بخدا ہمیں آپ کی اونٹنی کے بارے میں کوئی علم نہیں ، ہم نے اسے برگز نہیں دیکھا۔ اونٹنی کا مالک ان کی یہ بات سن کر غصے سے پاگل ہوگیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اس تینوں کو کھینچ کر قاضی کے پاس لے جائیگا ۔ اسے پورا یقین تھا

کہ اس کی اونٹنی کو یہ تینوں ذبح کر کے کھا چکے ہیں اور اب اپنے جرم کو چھپانے کیلئے جھوٹ بول رہے ہیں۔ اونٹنی والے نے جب تینوں کو اپنا ارادہ بتایا تو انہوں نے کہا ہمیں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ ہم خود بھی قاضی کے پاس ہی جا رہے ہیں۔

جب یہ چاروں قاضی کے پاس پہنچی تو اونٹنی والے نے قاضی سے اپنا قصہ بیان کیا۔ قاضی نے ان تینوں سے کہا جس طرح تم تینوں نے اونٹنی کی نشانیاں بتائی ہیں اس کا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اونٹنی تم تینوں کے پاس ہے ،

بہتر ہے کہ تم اپنے جرم کا اعتراف کرلو۔ پہلے نے کہا جناب عالی ، ہم نے اونٹنی تو نہیں دیکھی تھی، ہاں البتہ اونٹنی کے آثار ضرور دیکھے تھے۔ جب میں نے اسے کہا تھا کہ تیری اونٹنی ایک آنکھ سے کائی ہے تو میں نے دیکھا تھا کہ راستے کے ایک طرف کاگھاس تو خوب چرا بوا تها مگر دوسری طرف کا ویسی ہی موجود تھا۔ اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ اس شخص کی اونٹنی ایک آنکھ سے کانی رہی ہوگی۔

دوسرے حجر نے کہا میں نے دیکھا تھا کہ راستے میں تین قدم تو گہرے لگے ہوئے ہیں جبکہ چوتھا قدم زمین پر معمولی پڑا ہواتھا جس کا مطلب بس اتنا ہی بنتا تھا کہ یہ جانور لنگڑا بھی تھا۔

تیسرے حجر نے کہا، اونٹ جب راہ چلتے ہوئے اپنا گو بر گراتے ہیں تو دم سے ادھر ادھر بکھیرتے ہیں۔ جبکہ ہم جس راہ سے آئے تھے وہاں پر گوہر ایک ہی لائن میں سیدھا گرا ہوا تھا جس کا ایک مطلب ہو سکتا تھا کہ اونٹنی کی دم کٹی ہوئی ہے جو اپنا گوبر دائیں باتیں نہیں پھیلا پائی۔

قاضی نے بغیر کسی دیر کے اس آدمی کی طرف دیکھا اور کہا تم جا سکتے ہو۔ تمہاری او نٹنى ان لوگوں کے پاس نہیں ہے اور ناں ہی انہوں نے اسے دیکھا ہے۔

اونٹنی والے شخص کے جانے کے ان تینوں بھائیوں نے قاضی سے اپنا قصہ بیان کیا جسے سن کر قاضی بہت حیران ہوا۔ ان تینوں سے کہا تم آج کی رات مہمان خانے میں ٹھہرو میں کل تمہیں سوچ کر کوئی حل بتاؤنگا ۔

یہ تینوں مہمان خانے میں جاکر ٹھہرے تو انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی نگرانی کی جارہی ہے۔ کچھ دیر کے بعد ان کے لئے کھانا لایا گیا جو گوشت

کے پکے ہوئے سالن اور روٹیوں پر مشتمل تھا۔ پہلے نے کھانے کو دیکھتے ہی کہا یہ سالن کتے کے گوشت کا بنا ہواہے دوسرے نے کہا روٹیاں جس عورت نے پکائی ہیں وہ حمل کے ساتھ اور پورے دنوں سے ہے۔

تیسرے نے کہا یہ قاضی حرام کی اولاد ہے۔ بات قاضی تک پہنچ گئی اس نے تینوں کو دوسرے دن اپنی عدالت میں طلب کر لیا اور تینوں سے مخاطب ہوکر کہا تم میں سے کس نے کہا تھا یہ کتے کا گوشت پکا ہوا ہے، پہلا بولا میں نے کہا تھا ۔

قاضی نے باورچی کو بلوا کر پوچھا تو اس نے اعتراف کیا کہ پکانے کیلئے کچھ نہیں تھا تو اس کو شرارت سوجھی اور اس نے کتا مار کر اس کا گوشت پکایا اور ان کو کھانے کیلئے بھجوا دیا۔

قاضی نے پہلے سے پوچھا تمہیں کیسے پتہ چلا یہ گوشت کتے کا ہے تو اس نے بتایا گائے ، بکری یا اونٹ کے گوشت کے نیچے چربی لگی ہوتی ہے جبکہ یہ سارا چربی نما تھا جس کے نیچے کہیں کہیں گوشت لگا بواتها قاضی نے کہا تم وہ حجر ہو جس کو اپنے باپ کےمال سے وراثت ملے گی۔

قاضی نے دوبارہ ان سے مخاطب ہوکر پو چھا کس نے کہا یہ روٹیاں ایسی عورت نے بنائی ہیں جو نو ماہ کے حمل کے ساتھ اور اپنے پورے دنوں سے ہے ؟ جواب میں دوسرے نے کہا میں ہوں جس نے یہ کہا تھا۔ قاضی نے پوچھا تمہیں کیونکر یہ لگا تو اس نے کہا میں نے دیکھا روٹیاں ایک طرف سے پھولی ہوئی اور خوب یکی بوئی ہیں تو دوسری سے کچی اور موٹی رہ گئی ہیں۔ میں نے اس سے یہی اخذ کیا روئیاں بنانے والی ایسی خاتون ہے جس سے تکلیف کے مارے زیادہ جھکا نہیں جا رہا اور وہ سامنے کی چیز بھی نہیں دیکھ پارہی جس کا مطلب یہی بنتا تھا کہ عورت حاملہ ہے اور روٹیاں بنانے میں تکلیف محسوس کرتی رہی ہے۔ قاضی نے اس دوسرے سے بھی کہا کہ تم وہ حجر ہو جسے اس کے باپ کے ترکہ سے وراثت میں حصہ ملے گا۔

پھر قاضی نے تینو سے مخاطب ہوکرپوچھا یہ کس نے کہا تھا میں ولد الحرام ہوں ؟ تیسرے نے جواب دیا کہ یہ میں نے کہا تھا۔ قاضی اٹھ کر اندر گیا

اور اپنی ماں سے پوچھا کیا یہ سچ ہے کہ وہ حرامی ہے تو
اس کی ماں نے کہا یہ سچ ہے کہ تم حرام کے ہو۔ قاضی نےواپس آکر اس تیسرے حجر سے پوچھا تمہیں کیونکرمعلوم ہوا میں حرامی ہوں تو اس نے جواب دیا اگر تم حلالی ہوتے تو مہمان خانے میں ہم پر نگران نامقرر کرتے

ناہی کتے کا گوشت پکواکر ہمیں کھانے کیلئے بھجواتے

اور ناہی کچی روٹیاں کسی مظلوم عورت سے بنواکر ہمیں کھلواتے۔ قاضی نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم وہ حجر ہو جسے اس کے باپ کے مال سے ورثہ نہیں ملے گا۔

تیسرے نے حیرت کے ساتھ قاضی کو دیکھا اور پوچھا مگر ایسا کیوں ہے ، قاضی نے کہا کیونکہ ایک حرامی ہی دوسری ولد الحرام کو ٹھیک ٹھیک پہچان سکتا ہے اور تم بھی میری طرح حرام کی اولاد ہو۔ وراثت پانے والے دونوں حجر اپنی ماں کی طرف لوٹے اور دریافت کیا کہ ہمارے تیسرے بھائی کا کیا ماجرا ہے؟

تو ان کی ماں نے کہا تمہارا باپ ایک بار صبح کی نماز پڑھنے مسجد گیا تو اسے دروازے پر رکھا ہوا پایا تھا، اسے گھر لایا ، اس کا نام بھی تم دونوں جیسا حجر رکھا اور اس کی پرورش کی تھی

منقول

https://whatsapp.com/channel/0029VanYuhp6xCSH029USm37




-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H