"جب تقدیر جرنل عاصم منیر کے حق میں بولی"
تحریر عبدالجبار سلہری
کائنات کی شاہراہ پر دو ارادے ہمہ وقت متصادم رہتے ہیں۔ ایک بندے کا، دوسرا رب کا۔ بندہ تدبیروں کے لشکر لے کر نکلتا ہے، نیتوں کی تلواریں سونت کر میدان میں اترتا ہے، اپنے خوابوں کو حقیقت میں ڈھالنے کے لیے تگ و دو کرتا ہے، مگر جب اللہ کی چاہت سامنے آتی ہے تو ساری چالیں ماند پڑ جاتی ہیں، ساری بساط الٹ جاتی ہے، اور پتہ چلتا ہے کہ ”ہونا وہی ہے جو اللہ چاہے۔“
یہ صرف الفاظ نہیں، بلکہ ایک قانون الٰہی ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اے داؤد! ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے، ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔ اگر تُو اپنی چاہت کو میری چاہت کے تابع کردے تو میں تیری چاہت کے لیے بھی کافی ہو جاؤں گا، لیکن اگر تیری چاہت میری مرضی کے خلاف ہو تو میں تجھے تیری چاہت میں تھکا دوں گا، اور ہوگا تو پھر بھی وہی جو میری چاہت ہے۔“
یہ فرمانِ ربانی محض ایک تاریخی نصیحت نہیں، بلکہ ہر زمانے کا آئینہ ہے۔ یہی آئینہ آج کی سیاست اور عسکری حالات میں بھی جھلکتا ہے، خصوصاً جنرل عاصم منیر کے سفرِ زندگی میں۔ ایک ایسا سفر جسے روکنے کی بارہا کوشش کی گئی، مگر جو رُکا نہیں، تھما نہیں، کیونکہ اس کے پیچھے اللہ کی چاہت کھڑی تھی۔
جنرل عاصم منیر کا نام جب بھی لیا جائے گا، تاریخ رک کر ایک لمحہ سجدے میں جائے گی، کیونکہ یہ وہ شخص ہے جسے نکالنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا گیا، مگر جسے اللہ نے بلند کرنا چاہا، اور بلند کر دیا۔
عمران خان کا دور حکومت داخلی سطح پر شدید تضادات کا شکار تھا، جہاں ہر طاقتور شخصیت کو یا تو زیر کر لیا جاتا یا منظر سے ہٹا دیا جاتا۔ عاصم منیر اس وقت آئی ایس آئی کے چیف تھے، ایک نڈر، دیانت دار، اور بے باک افسر۔ ان کے اصولی مؤقف اور کردار نے انہیں عمران خان کے لیے غیر موزوں بنا دیا۔ کیونکہ انہوں نے مبینہ طور پر وزیراعظم کو ان کی بیوی کی مالی بے قاعدگیوں سے آگاہ کیا۔
یہ اطلاع دینا، جو کہ فرض کا تقاضا تھا، خان کے لیے ناقابلِ برداشت بن گیا۔ نتیجتاً، انہیں صرف آٹھ ماہ کے اندر عہدے سے ہٹا دیا گیا، اور انہیں گوجرانوالہ کا کور کمانڈر بنا کر پس منظر میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی۔ یہ گویا ان کے کردار کو دیوار سے لگانے کی پہلی کوشش تھی۔ مگر یہ بھول گیا گیا کہ جسے اللہ بچانا چاہے، اسے کوئی گرا نہیں سکتا۔
وقت کا پہیہ گھوما، اور تقدیر نے انہیں دوبارہ فوج کے سینئر ترین افسران میں لا کھڑا کیا۔ جیسے ہی ان کا نام آرمی چیف کے طور پر سامنے آیا، عمران خان کی قیادت میں ایک منظم مہم کا آغاز کیا گیا۔ ان پر مختلف الزامات کی بوچھاڑ ہوئی: کہا گیا کہ یہ ایک خاص لابی کے فرد ہیں، کہا گیا کہ یہ عوامی حمایت سے محروم ہیں، اور انہیں ناپسندیدہ بنانے کے لیے سوشل میڈیا پر جھوٹے بیانیے تشکیل دیے گئے۔
یہاں تک کہ عسکری ادارے کے اندر کچھ ایسے عناصر کو متحرک کیا گیا جو ان کی تقرری کو روک سکیں۔ پچھلے ادوار کی طرح سازشوں کے جال بنے گئے، لیکن ہر بار وہ جال خود ہی الجھ کر رہ گیا۔
پھر وہ دن آیا جو تاریخ میں سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا: 9 مئی 2023۔ یہ دن ایک ایسا سانحہ لے کر آیا جس نے فوج، ریاست اور عوامی سلامتی کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں حساس عسکری تنصیبات پر منظم حملے کیے گئے۔ راولپنڈی کور کمانڈر ہاؤس جلایا گیا، شہداء کی یادگاریں مسمار کی گئیں، اور فوج کو عوام کا دشمن دکھانے کی ناپاک کوشش کی گئی۔
یہ سب اس منصوبے کا حصہ تھا جو جنرل عاصم منیر کے خلاف برپا کیا گیا تھا۔ مقصد واضح تھا: فوج کے اندر بغاوت کو ہوا دینا، ادارے کو تقسیم کرنا، اور عوام کو فوج سے متنفر کر کے جنرل صاحب کو کمزور کرنا۔ مگر ان کے عزم، تدبر، اور خاموش حکمتِ عملی نے یہ سازش خاک میں ملا دی۔
جس وقت ہر طرف اندھیرا چھا چکا تھا، اللہ کی نصرت نمودار ہوئی۔ ملک کے باشعور طبقات، مقتدر حلقے اور عوام کی خاموش اکثریت نے واضح پیغام دیا کہ وہ اس فساد کے ساتھ نہیں، بلکہ اداروں کے استحکام کے ساتھ کھڑی ہے۔
جنرل صاحب نے ثابت قدمی دکھائی، اور ان کے صبر اور تدبر نے پورے نظام کو سنبھالا دیا۔ حالیہ دنوں جب بھارت نے سرحدوں پر کشیدگی بڑھائی، تو خان اور اس کی جماعت نے اس کارروائی کو ”نورا کشتی“ قرار دے کر طنز کا نشانہ بنایا۔ مگر جب فوج نے جرأت مندانہ اور بے مثال حکمتِ عملی سے جواب دیا، اور قومی دفاع کو مضبوط کیا، تو دنیا کو اندازہ ہوا کہ پاکستان کو ایک ایسا سپہ سالار مل چکا ہے جو نیت، قابلیت اور قوتِ فیصل میں بے مثال ہے۔
عاصم منیر کی خدمات کو دیکھتے ہوئے ریاست نے انہیں غیر معمولی اعزاز سے نوازا۔ فیلڈ مارشل کا عہدہ محض ایک اعزاز نہیں، بلکہ ایک تاریخی اعلان ہے۔ اعلان اس بات کا کہ جو اللہ چاہے وہ ہو کر رہتا ہے، چاہے ساری دنیا مخالفت کرے۔
یہ اللہ کی تائید کا وہ راز ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام کے قول میں چھپا تھا: ”میں تمہیں تمہاری چاہت میں تھکا دوں گا، اور ہوگا تو وہی جو میں چاہوں گا۔“عمران خان نے تمام سیاسی، سماجی، اور میڈیا طاقتوں کو بروئے کار لایا، مگر اللہ نے عاصم منیر کو سرفراز کیا۔ یہ اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ اللہ جب کسی کو نوازنا چاہے تو کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔
یہ اللہ کے وعدے کا عملی مظہر ہے۔ یہ وہ پیغام ہے جو ہر انسان کو یاد رکھنا چاہیے: تدبیر کرو، مگر تقدیر کو نہ بھولو؛ خواہش کرو، مگر رضا کو نہ چھوڑو؛ سازشیں کرو، مگر اللہ کی مشیت پر ایمان رکھو۔
جنرل عاصم منیر کی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ دنیا کے تخت و تاج، طاقت و سیاست، سب اس کے حکم کے سامنے بے بس ہیں۔
تو اے انسان! تھکنے سے پہلے سر جھکا لے، کیونکہ ہوگا وہی... جو اللہ چاہے گا۔
-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H