”غیرت کا نام ہے پاکستان“
تحریر: عبدالجبار سلہری
دنیا کے میدانِ جنگ میں توپ و تفنگ کی گھن گرج تو عام بات ہے، مگر کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جو صرف سرحدوں پر نہیں، تہذیبوں کی پیشانی پر لکھے جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک لمحہ کل دیکھنے کو ملا، جب پاکستان کے دفاعی نظام نے ایک بھارتی شیوانی سنگھ پائلٹ کو اپنی تحویل میں لیا۔ وہ دشمن فوج کا حصہ تھی، مگر ایک عورت بھی تھی۔ پاکستانی ریاست کے پاس طاقت تھی، اس کے پاس میڈیا کا ہتھیار تھا، فخر و فتح کے نعرے لگانے کا موقع تھا، مگر ریاست خاموش رہی۔ نہ چہرہ دکھایا، نہ نام پکارا، نہ طنز کیا، نہ تمسخر۔ کیونکہ ہم وہ قوم ہیں جس کے نزدیک دشمنی الگ چیز ہے، اور عورت کی حرمت الگ۔
یہ خاموشی کوئی کمزوری نہ تھی، یہ وہ صبر تھا جو طاقت کی انتہا پر آ کر نصیب ہوتا ہے۔ یہ وہ غیرت تھی جو توپ سے نہیں، تہذیب سے پھوٹتی ہے۔ پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ ہم صرف ایک جوہری قوت نہیں، ایک تہذیبی طاقت بھی ہیں۔
اسلام عورت کو عزت کا مقام دیتا ہے، اور میدانِ جنگ میں بھی اس کے تقدس کا پاس رکھتا ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ قیدی خواہ دشمن ہو، اس کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے نیک بندوں کی صفات گنواتے ہوئے یہ فرمایا کہ وہ مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام دشمن قیدیوں کو بھی انسان سمجھتا ہے، خصوصاً جب وہ عورت ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہمیں بتاتی ہے کہ آپ نے جنگوں میں کبھی عورتوں، بچوں اور راہبوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی۔ اگر کوئی عورت جنگ میں شریک ہو بھی جائے تو اس کے ساتھ سلوک کا معیار عدل و رحم پر مبنی ہوتا ہے، نہ کہ انتقام پر۔
فقہائے اسلام کا اس بارے میں اتفاق ہے کہ عورت بنیادی طور پر قتال کی مکلف نہیں۔ اگر کوئی عورت میدانِ جنگ میں قتال کرے، ہتھیار اٹھائے اور براہ راست حملہ آور ہو تب بھی اس کے قتل کا حکم فوری نہیں ہوتا، بلکہ اس کی نوعیت، شدت، اور خطرے کا تعین کیا جاتا ہے۔
امام ابو حنیفہ کے مطابق اگر کوئی عورت قتال میں شریک ہو تو صرف اسی صورت میں اسے سزا دی جائے گی جب وہ جان لیوا حملے کی مرتکب ہو۔ بصورت دیگر، اس کا قیدی بنایا جانا کافی ہے اور اس کے ساتھ اسلامی اصولوں کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل بھی یہی مؤقف رکھتے ہیں کہ عورت کے فطری اور معاشرتی مقام کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جانا چاہیے۔
اسلامی تاریخ میں ہمیں کئی مثالیں ملتی ہیں جہاں دشمن خواتین کو قید کرنے کے بعد ان کے ساتھ شریعت کے مطابق سلوک کیا گیا، ان کی عزت محفوظ رکھی گئی، ان کے دین، نسل اور زبان کی بنیاد پر کوئی زیادتی نہیں کی گئی۔ یہی وہ تعلیمات ہیں جو آج بھی پاکستان کی پالیسی کا حصہ ہیں۔
جب بھارتی حکومت نے درخواست کی کہ ان کی پائلٹ کو میڈیا پر ظاہر نہ کیا جائے، اس کی عزت اور سکھ برادری کی غیرت کا لحاظ رکھا جائے، تو پاکستانی حکومت نے اس اپیل پر نہ صرف غور کیا، بلکہ فوراً عمل بھی کیا۔ اس عورت کا چہرہ دکھایا گیا، نہ نام لیا گیا، نہ اس کی تحقیر کی گئی۔ وہ دشمن تھی، مگر عورت بھی تھی، پنجابی بھی تھی، اور سکھ برادری کی بیٹی بھی۔ پاکستان نے ان تمام رشتوں کا لحاظ رکھا۔
یہی وہ رویہ ہے جسے اصل فتح کہا جاتا ہے۔ دشمن کے مقابلے میں اگر ہم بھی اسی کی زبان میں بات کریں، اسی کی طرح عورت کو سیاست کا ہتھیار بنا لیں، تو فرق کیا رہ جائے؟ لیکن پاکستان نے اپنا فرق، اپنا اخلاق، اپنا شجرہ نسب دکھایا۔ ہم اس نبی کے امتی ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے روز اپنے دشمنوں کو بھی معاف کیا، اور ان کے گھروں کو پناہ گاہ قرار دیا۔
پاکستان نے ثابت کیا کہ ہم صرف سپاہی نہیں، وارث ہیں اُس تہذیب کے جس میں عورت کی عزت کو قلعے سے زیادہ محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے دنیا کو بتایا کہ اگرچہ تمہاری پائلٹ ہماری سرزمین پر گرفتار ہوئی، مگر اس کی حرمت، اس کی عصمت، اور اس کا احترام ہم پر فرض ہے۔
سکھ برادری کو بھی یہ پیغام گیا کہ پاکستان نے صرف کرتارپور کا دروازہ نہیں کھولا، دلوں کا در بھی وا رکھا ہے۔ آج جب دشمنی کے شعلے بھڑک رہے ہیں، پاکستان نے عزت، غیرت، تہذیب اور شرافت کی وہ مثال قائم کی ہے جو دنیا کے میڈیا نے بھی تسلیم کی۔
یہ ایک خاتون قیدی کی کہانی نہیں، یہ اس تہذیب کی داستان ہے جو ہمیں اسلام نے سکھائی، جو ہمیں قرآن و سنت نے دی، جو ہمیں ائمہ فقہ نے سمجھائی، اور جس پر عمل کر کے پاکستان نے ثابت کر دیا:
”غیرت کا نام ہے پاکستان، اور عورت ہماری عزت ہے، خواہ دشمن کی کیوں نہ ہو۔“
ہم وہ قوم ہیں جس کے بزرگوں نے عورت کو زندہ درگور ہونے سے نکالا،
جس کے نبی نے فرمایا:
”عورت کو عزت دو، وہ تمہارے درمیان اللہ کی امانت ہے۔“(مسند احمد)
یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ یہ تاریخ کا وہ ورق تھا جس پر پاکستانی غیرت نے روشنائی سے نہیں، کردار سے لکھا: ہم فتح بھی کرتے ہیں اور عزت بھی بچاتے ہیں۔ ہم لڑتے بھی ہیں، اور معاف بھی کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم مسلمان ہیں، اور پاکستان ہمارا چہرہ ہے، وہ چہرہ جس پر عورت کی عزت کا نور جگمگاتا ہے۔
لہٰذا ہم عورت کو جنگی مال نہیں سمجھتے۔ ہم اسے شرم و حیا، غیرت اور حرمت کی علامت سمجھتے ہیں۔ اگر کل کوئی دشمن عورت ہمارے ہاں آئی بھی، تو اس کے دو پردے تھے۔ ایک اس کے سر کا، دوسرا ہماری غیرت کا!
ہم نے ثابت کیا اور پیغام دیا دنیا کو ہم لڑ سکتے ہیں، مار سکتے ہیں، جیت سکتے ہیں، مگر عزت پر وار نہیں کرتے۔ یہی وہ پاکستان ہے جس پر سکھ بھائیوں کو بھی فخر ہونا چاہیے،اور دنیا کو حیرت۔
-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H