Article Image

*جادو کے حصار میں نکاح، جہالت یا جرم؟*

جادو کے حصار میں نکاح، جہالت یا جرم؟
تحریر: عبدالجبار سلہری

نکاح محض ایک معاہدہ نہیں، بلکہ ایک عبادت ہے۔ ایک روحانی بندھن جو دو دلوں، دو خاندانوں، بلکہ دونوں جہانوں میں ہمیشہ کے لیے انسان کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ قرآن کریم نے اس رشتے کو ”میثاقاً غلیظاً“ یعنی ایک پُر وقار، مضبوط اور عظیم عہد قرار دیا۔ یہ رشتہ اگرچہ آسمانی رحمت کا مظہر ہے، مگر جب اس پر توہمات، جہالت اور جادو کے سائے پڑتے ہیں، تو یہی رحمت ایک قید، ایک اذیت، اور ایک صریح ظلم بن جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے کی کئی بیٹیاں ایسی ہیں جن کے نصیب کی کتاب پر جادو کی سیاہی لکھی جاتی ہے۔ ان کی قسمت کا فیصلہ عاملوں کے تعویذ گنڈے کے ذریعے کروایا جا رہا ہوتا ہے، ان کے نصیب کی راہیں جعلی پیروں، من گھڑت خوابوں اور خود ساختہ روحانی قبضوں کی کوٹھریوں میں گم ہو جاتی ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے, تمہارا نکاح جنّات میں سے کسی ایک سے ہو چکا ہے، تو کبھی سننے کو ملتا ہے: تم پر ایسا جادو ہے کہ نکاح ممکن نہیں۔ گویا عقل کو زنجیر پہنا دی گئی ہو، اور شریعت کو کسی تسبیح میں قید کر دیا گیا ہو۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اور جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہوتا، جہاں سے بھی وہ آئے۔“ (سورہ طٰہٰ، آیت 69)
اسی مفہوم کو نبی کریم ﷺ نے یوں بیان فرمایا:
"جو کسی کاہن یا نجومی کے پاس جائے اور اس کی بات کی تصدیق کرے، تو اس نے محمد ﷺ پر نازل شدہ شریعت کا انکار کیا۔" (مسند احمد)
اور ایک اور موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جو شخص جادو کرے یا کرائے، وہ ہم میں سے نہیں۔" (طبرانی)
ایک اور مقام پر شدید الفاظ میں مذمت فرمائی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جادو کرنے والے اور کروانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔"

سوچنے کا مقام ہے۔ جو عمل بذاتِ خود حرام ہو، کیا وہ کسی پاکیزہ رشتے کی بنیاد بن سکتا ہے؟
کیا اندھیرے سے اجالا جنم لیتا ہے؟
کیا زہر سے شفا ممکن ہے؟ نکاح کو جادو کے ذریعے جوڑنے کی سوچ نہ صرف شریعت کی صریح مخالفت ہے، بلکہ انسانیت کی تذلیل بھی ہے۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "نکاح ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر نہیں ہوتا۔" (سنن ترمذی)
اور مزید فرمایا: "ولی کے بغیر نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے۔" (سنن ابو داود)

لہٰذا ایسا نکاح، جو نہ ولی کے سائے میں ہو، نہ گواہوں کی موجودگی میں، اور نہ شرعی اصولوں کے مطابق وہ نکاح نہیں، بلکہ فریب ہے؛ ایک جذباتی قید، تعویذ گنڈے کے نام کے نام پر استحصال کا کھیل ہے۔
یہی نہیں، بلکہ جادو کے زور پر نکاح کرانا یا باقاعدہ شرعی نکاح کی راہ میں رکاوٹ بننا انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور کی شق نمبر 16 کہتی ہے: ”شادی صرف اور صرف دونوں فریقین کی رضامندی سے ممکن ہے“۔ دینی گمراہی اپنی جگہ، مگر اس عمل کے سماجی و نفسیاتی اثرات بھی نہایت مہلک ہیں۔ ایسی لڑکیاں اپنی باقی زندگی خوف، احساسِ کمتری اور ذہنی غلامی میں گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ نہ وہ مکمل بیٹیاں رہتی ہیں، نہ بہنیں، نہ بیویاں۔ بلکہ محض ایک خاموش اور بمثل لاش جیسا انسان بن جاتی ہیں، جو سانس تو لیتی ہیں، مگر جیتی نہیں۔

دارالعلوم دیوبند جیسے معتبر ادارے کا فتویٰ ہے: ”جادو کے ذریعے کیا گیا نکاح شرعاً باطل ہے، اور اس بنیاد پر کسی لڑکی کو شادی سے روکنا ظلم اور زیادتی ہے۔“ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند)
نکاح میں تاخیر یا رکاوٹ کی کئی دنیاوی وجوہات بھی ہوتی ہیں: والدین کی ناسمجھی، غیر ضروری مطالبات، لڑکی یا لڑکے کی ذاتی ترجیحات، یا پھر سماجی دباؤ۔ ان حقیقی اسباب کو نظر انداز کرکے ہر ناکامی کو جادو سے جوڑ دینا۔ یہ عقل پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنی چھت ٹپکنے پر آسمان کو الزام دے، مگر بنیاد کی کمزوری نہ دیکھے۔

جب کہ جادو ٹونے کے لیے بہت سارے نوجوان بھی جعلی عاملین کے ڈیروں پہ پہنچتے ہیں اور اپنا مال و دولت لوٹا کر من پسند لڑکی اور ان کے خاندان پہ جادو کے ذریعے ڈورے ڈالنے کی ناکام کوشش میں لگے رہتے ہیں، یہ ظلم اب انفرادی سطح سے نکل کر ایک معاشرتی ناسور بن چکا ہے۔ جعلی عاملوں کے دربار سجے ہوئے ہیں، اور ان کے ہاتھوں میں کوئی کلام اللّٰہ نہیں بلکہ شیطان کا قلم ہے۔ یہ عاملین معاشرے کے مستقبل نوجوان بچوں اور بچیوں کو جو کبھی خاندان کا مان تھے، جعلی اور شیطانی کاموں کے پیچھے لگ چکے ہیں۔
لہٰذا لازم ہے کہ: والدین خوف یا باطل عقائد کے اندھیرے میں نہیں، دین و علم کی روشنی میں فیصلے کریں، علمائے کرام منبر و محراب سے اس فتنہ کے خلاف آواز بلند کریں،حکومت جعلی پیروں اور عاملوں کے خلاف سخت قانون سازی کرے، اور والدین ، بہن بھائی ان بیٹیوں کا سہارا بنے جو جادو کے زنجیروں میں جکڑ دی گئی ہیں۔ اور ان نوجوانوں کی رہنمائی کریں جو شیطان کی راہ میں چل پڑے ہیں۔
نکاح کو عبادت سمجھیں، سنت نبوی اور اللّٰہ تعالیٰ کا حکم سمجھیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس دلدل میں پھنسے ہوئے نوجوانوں کے لیے کمیونٹی سینٹر قائم کیے جائیں ان کی صحیح رہنمائی کی جائے، ایسے گھناونے افعال کے پیچھے جتنے ہی طاقتور مجرم کیوں نہ ہوں انہیں قانون کے کٹہرے میں لاکر قرار واقعی سزا دلوائی جائے۔ اللّٰہ تعالیٰ کے دین کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے نا صرف اللّٰہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں بلکہ انسانیت کے مجرم ہیں۔

یاد رکھیے، نکاح عبادت ہے، جادو گناہ کبیرہ اور حرام افعال میں سے ہے۔ ان دونوں کو یکجا کرنا نہ صرف دین اسلام سے کھیلنے کے مترادف ہے بلکہ انسانیت کے منہ پر بھی ایک طمانچہ ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو۔" صحابہ نے عرض کیا: "یارسول اللہ! وہ کیا ہیں؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا." (صحیح بخاری)

ہمیں چاہیے کہ ہم اس ظلم کے خلاف زبان بھی کھولیں، قلم بھی چلائیں اور قدم بھی اٹھائیں، تاکہ نوجوان اس گہری دلدل سے بچ سکیں۔
*

-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H