Article Image

”آہنی دیواروں کے سائے میں سچ جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے!“

”آہنی دیواروں کے سائے میں سچ جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے!“
تحریر: عبدالجبار سلہری
کہتے ہیں اقتدار کا سب سے قیمتی زیور اعتماد ہوتا ہے، اور جب یہی اعتماد ٹوٹتا ہے تو تاج محل بھی کھنڈر لگنے لگتا ہے۔ عمران خان، وہ شخص جو کبھی "ریاست مدینہ" کے خواب دکھاتا تھا، آج خود جیل کی دیواروں کے سائے میں چیخ رہا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ اسے کس نے قید کیا، سوال یہ ہے کہ اسے آزادی کا ذائقہ اب کڑوا کیوں لگنے لگا ہے؟

عمران خان کی زبان سے نکلنے والے الزامات، فوج پر براہِ راست تنقید، جیل میں مبینہ "ہراسانی"، اور اب جنسی استحصال جیسے سنگین دعوے—یہ سب اس سچ کی مانند ہیں جو زہر بن کر گلے میں اٹک گیا ہو۔ کبھی کہا کہ فوج نے ہمیں بچایا، کبھی کہا کہ انہی کے اشارے پر اقتدار ملا، اور آج وہی فوج "فاشزم" کی علامت بن گئی؟ کیا یہ مکافاتِ عمل نہیں؟

خان صاحب کا کہنا ہے کہ جیل میں ان سے ملاقات کی اجازت نہیں، خاندان کو روکا جا رہا ہے، اور انہیں ذہنی و جسمانی اذیت دی جا رہی ہے۔ یہ شکایات سُن کر وہ دن یاد آتے ہیں جب اپوزیشن کی خواتین سیاسی قیدیوں کے بارے میں یہی سچ خان صاحب کے دربار میں ماتم کی صورت پیش کیا جاتا تھا، اور جواب میں "یہ سب ڈرامہ ہے" کہا جاتا تھا۔ آج وہی ڈرامہ خود پر بیت رہا ہے تو انصاف کی دہائی کیوں؟

اور اب بات آ گئی ہے لواطت جیسے سنگین الزام تک۔ وہی زبان جو پہلے "عزت دار" فوج کے قصیدے پڑھتی تھی، آج اُسی ادارے کو مجرم ٹھہرا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ماضی میں یہ رجحانات "شوق" تھے تو آج "ظلم" کیوں؟ کیا میجر کا کردار آج مجرم ہے یا کل کا ساتھی؟ اور اگر یہ سب سچ ہے تو خان صاحب نے اب تک خاموشی کیوں رکھی؟

یہ قوم عجیب ہے، جسے "بیانیہ" چاہیے، سچ نہیں۔ کل خان کا ہر لفظ وحی لگتا تھا، آج وہی لفظ منافقت بن چکا۔ مگر ٹھہریے، کیا صرف خان ہی بدل گیا؟ یا عوام کا حافظہ مختصر اور جذباتی ہے؟

خان صاحب کے دورِ اقتدار میں جن صحافیوں کو اٹھایا گیا، جن طالبعلموں کو جیلوں میں ڈالا گیا، اور جن کارکنوں پر تشدد کیا گیا، وہ سب آج کی داستان کے گواہ ہیں۔ کیا وہ بھی چیخے تھے؟ ہاں، مگر اس وقت ان کی چیخیں مخالفین کی سازش لگتی تھیں۔ آج وہی سچ خان صاحب کی اپنی زبان پر ہے۔

اس وقت کے چیف جسٹس اور اسٹیبلشمنٹ کو خان صاحب "نیوٹرل" کہہ کر سراہتے تھے۔ آج وہی لوگ "سازشی ٹولہ" اور "ریاستی دہشت گردی" کے علمبردار قرار دیے جا رہے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ کون بدل گیا، سوال یہ ہے کہ اقتدار میں سچ کا پیمانہ کیوں بدل جاتا ہے؟

خان صاحب کہتے ہیں کہ ان کے انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ یہ شکایت بجا ہو سکتی ہے، مگر اس کا علاج فوجی اداروں کو برا بھلا کہنے میں نہیں بلکہ قانون کے ذریعے ہے۔ اگر واقعی جیل میں ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو پاکستان کا آئین اور عدلیہ ان کے ساتھ کھڑی ہو سکتی ہے۔ مگر اگر یہ الزامات محض سیاسی فائدے کے لیے ہیں تو یہ تاریخ کا سب سے خطرناک کھیل ہے۔

کیا واقعی انہیں کوئی میجر ہراساں کر رہا ہے؟ اگر ہاں تو نام کیوں چھپایا جا رہا ہے؟ مقدمہ کیوں درج نہیں کرایا جا رہا؟ کیا یہ سب کچھ صرف عالمی میڈیا کے لیے ہے یا پاکستانی عوام کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے؟

افسوس اس بات کا ہے کہ عمران خان جیسی شخصیت، جو کبھی قوم کے لیے امید کی کرن سمجھی جاتی تھی، آج بیانیوں، الزامات اور سازشوں کے جال میں پھنس گئی ہے۔ انہیں چاہیے کہ اگر وہ واقعی سچے ہیں تو عدالت کا سامنا کریں، ثبوت پیش کریں، اور قوم کے سامنے وضاحت کریں۔ مگر اگر وہ صرف جذباتی نعروں کے ذریعے خود کو مظلوم ثابت کرنا چاہتے ہیں، تو یاد رکھیں: مظلوم بننے کے لیے صرف جیل جانا کافی نہیں، کردار بھی شفاف ہونا چاہیے۔

قوم کو بھی اب جذباتی نعروں سے باہر نکلنا ہو گا۔ اگر عمران خان مظلوم ہیں تو انہیں انصاف ملنا چاہیے، اور اگر وہ محض سیاسی ڈرامہ کر رہے ہیں تو انہیں بے نقاب ہونا چاہیے۔ عدالتیں آزاد ہیں، میڈیا موجود ہے، اور دنیا دیکھ رہی ہے۔ سچ اب زیادہ دیر نہیں چھپ سکتا۔

آج جو سچ عمران خان کی زبان پر ہے، وہی سچ کل کسی اور کے خلاف استعمال ہو گا۔ یہ وقت ہے سچ کو بیانیے سے الگ کرنے کا، کیونکہ آہنی دیواروں کے سائے میں سچ جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے!




-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H