تقدیر کے اجالے روایت کے اندھیرے
تحریر:عبدالجبار سلہری
یہ صرف ایک فریاد نہیں، ایک صدیوں پرانا نوحہ ہے۔ یہ ہر اس خواب کی کرچیوں کا ماتم ہے جو کسی بیٹی کی آنکھوں میں جگمگایا، مگر خاندانی غیرت کے پتھر تلے کچلا گیا۔ یہ ہر اس دل کی چیخ ہے جس نے محبت کی راہ میں پہلا قدم رکھا، مگر رسم و رواج کی زنجیروں نے اسے باندھ دیا۔ یہ داستان کسی ایک لڑکی کی نہیں، بلکہ اس پورے سماج کا آئینہ ہے، جہاں بیٹیاں گھر کی عزت کہلا کر بے بسی کی تصویر بنا دی جاتی ہیں، جہاں ان کی خوشیوں کے رنگ خاندان کی نام نہاد روایات کے سیاہ سایوں میں دفن کر دیے جاتے ہیں۔
میری عمر تیس موسموں کی طویل رات بن چکی ہے، جس میں دن کی روشنی کا کوئی دروازہ نہیں کھلتا۔ میری جوانی کسی پرانے گیت کی مانند ہے جو گنگنانے کے قابل نہیں رہا، کسی بوسیدہ کتاب کے زرد اوراق کی مانند، جسے کبھی پڑھنے کی زحمت نہیں کی گئی۔ میرے دل کی زمین پر پینتیس خزائیں گزر چکی ہیں، مگر بہار کی کوئی کرن اب تک نمودار نہیں ہوئی۔ میں خاندان کی روایات کی زنجیروں میں جکڑی ایک ایسی قیدی ہوں، جس کا جرم صرف اتنا ہے کہ اس کی پیدائش ایک ایسی سلطنت میں ہوئی جہاں خاندان سے باہر شادی کرنا غداری کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
میری زندگی بنجر زمین کی طرح ہے، جہاں قسمت کی بارشیں نہیں برستیں، جہاں خوابوں کے بیج پڑے رہتے ہیں مگر امید کی کونپل نہیں نکلتی۔ میں وہ چراغ ہوں جو اندھیری کوٹھری میں رکھا ہے، جس کی روشنی خود اس کے حصار میں قید ہے، جسے کسی نے ہوا میں رکھنے کی زحمت تک نہیں کی کہ شاید اس کی روشنی کسی اور کے لیے بھی میسر ہو جائے۔
جب خاندان کے بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے سات پشتوں سے کبھی خاندان سے باہر شادی نہیں کی، تو میرا دل یوں بیٹھ جاتا ہے جیسے کسی پرانے درخت کا آخری پتا جھڑنے کو ہو۔ میں خزاں رسیدہ پیڑ کی طرح بے رونق ہو چکی ہوں، جیسے کسی پرندے کے پروں کو کاٹ کر آزاد فضا میں چھوڑ دیا جائے، مگر وہ اڑنے کے قابل نہ رہے۔ میں وہ قیدی ہوں جسے پنجرے کے دروازے کے ساتھ زنجیروں میں بھی جکڑ دیا گیا ہے، کہ نہ اڑنے کی خواہش باقی رہے، نہ آزادی کی امید۔
یہ وقت بھی کیسا ظالم ہے! میری سہیلیاں خوشیوں کی باراتوں میں دلہن بنی بیٹھی ہیں، اور میں ہر تقریب میں ایک تماشائی کی مانند حسرت بھری آنکھوں سے سب کچھ دیکھتی ہوں، جیسے کوئی مسافر ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کے گزر جانے کے بعد خالی پٹریوں کو تک رہا ہو۔ دل میں ایک عجیب سا درد اٹھتا ہے، جیسے کسی بے آباد بستی میں ویران مسجد اذان کے بغیر کھڑی ہو۔
رات کے سناٹے میں جب پورا گھر خوابوں کی گہری وادیوں میں کھو جاتا ہے، میں تنہائی کے سائے میں بیٹھی اپنے نصیب کے پتھریلے راستے پر چلنے کی ہمت مجتمع کرتی ہوں۔ میرے آنسو یوں بہتے ہیں جیسے برسوں کی سوکھی زمین پر اچانک بارش برس پڑے، مگر وہ پانی زمین کو سیراب کرنے کے بجائے بہہ جائے۔ جیسے کسی دیوار پر پانی پھینکا جائے مگر وہ جذب ہونے کے بجائے نیچے ٹپک پڑے۔ میری تقدیر کی سنگدل دیواروں پر کوئی نمی تک محسوس نہیں ہوتی۔
اے خدا! کیا میری قسمت واقعی ایسی تھی، یا میرے اپنوں نے میرے نصیب کے دیے خود بجھا دیے؟ یہ سوال مجھے راتوں کو جاگنے پر مجبور کر دیتا ہے، مگر جواب دینے والا کوئی نہیں۔
کبھی جی چاہتا ہے کہ اس خاندانی رسم و رواج کی دیواروں کو گرا دوں، مگر ڈر لگتا ہے کہ کہیں میرے وقار کا آخری ستون بھی نہ گر جائے۔ کبھی سوچتی ہوں کہ اس بے حس سماج کو آئینہ دکھا دوں، مگر کہیں اس آئینے میں میری اپنی ہی بے بسی کی تصویر منعکس نہ ہو جائے۔ کبھی چاہتی ہوں کہ اپنے مقدر کے دروازے پر لگے زنگ آلود تالے کو توڑ ڈالوں، مگر ڈر لگتا ہے کہ کہیں دروازہ ہی نہ گر جائے اور میں کسی ویران گلی میں تنہا کھڑی رہ جاؤں۔ کبھی اپنی زندگی کی باگیں خود سنبھالنے کا ارادہ کرتی ہوں، مگر ڈر ہے کہ کہیں کسی ایسے جنگل میں نہ جا پہنچوں جہاں بھیڑیے میرے منتظر ہوں۔
اے مفتیِ اعظم! اے حاکمِ وقت! اے میرے محلے کی مسجد کے امام صاحب! میری آواز سنیے! میں اپنی تقدیر کا لہو کس کے ہاتھ تلاش کروں؟ میں کس منصف کے دروازے پر جا کر فریاد کروں؟ اے مولوی صاحب! آپ ہر جمعے کے خطبے میں معاشرتی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں، مگر میری فریاد کسی آیت کی تشریح میں نہیں آتی۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ یہ جھوٹے خاندانی تفاخر کی زنجیریں کسی لڑکی کی زندگی کو زندہ درگور کر دیتی ہیں؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ میں جلتی ہوئی لکڑی ہوں، جسے بجھانے کے بجائے مزید سلگنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے؟
اے لوگو! اگر کوئی تیار کھانے کو خود پرے دھکیل دے اور پھر کہے کہ میری قسمت میں بھوک تھی، تو کیا اسے عقلمند کہو گے؟ کیا یہ نصیب ہے کہ جو رشتے اللہ نے بھیجے، وہ ہمارے اپنوں کی انا کی دیواروں سے ٹکرا کر راستہ بدل گئے؟ اے والد! اے بھائیو! اگر کسی کھیت میں دانے بو کر پانی نہ دیا جائے، تو کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ قسمت میں زرخیزی نہیں تھی؟ اگر کسی پرندے کے گھونسلے کو خود توڑ دیا جائے اور پھر اسے آسمان میں بے بسی سے بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا جائے، تو کیا یہ کہنا جائز ہوگا کہ اس کی قسمت میں ٹھکانہ نہیں تھا؟
یہ ہر اس لڑکی کا نوحہ ہے جسے اپنی عمر کی دھوپ میں تپتے تپتے بالآخر خاک ہونا ہے۔ یہ ہر اس آنگن کی کہانی ہے جہاں بیٹیوں کی قسمت کو خاندانی زنجیروں میں جکڑ کر وقت کی بے رحم دھوپ کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
اے دنیا کے منصفو! یہ کوئی مذاق نہیں، یہ ایک زندگی کا نوحہ ہے، وہ زندگی جو امید کے کسی قطرے کی منتظر ہے، جو مٹی میں دفن ہونے سے پہلے ہی مٹی کا ڈھیر بن چکی ہے۔
اے خدا! تو گواہ رہنا، میرے نصیب کا ستارہ روشن تھا، مگر میرے اپنوں نے اسے اپنے ہاتھوں سے بجھا دیا، اور اب وہی ہاتھ میری تقدیر کے اندھیروں پر افسوس کر رہے ہیں۔ الٰہی! تو گواہ رہنا، میں نے اپنی بربادی کو اپنی قسمت نہیں، بلکہ اپنوں کے فیصلوں کا نتیجہ سمجھا ہے۔
-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H