Article Image

وزیر اعظم صاحب مذمت نہیں مرمت کیجیئے

"وزیراعظم صاحب، مذمت نہیں، مرمت کیجیے!"
تحریر: عبدالجبار سلہری
کہتے ہیں، جب کسی قوم کا ضمیر مٹی میں دفن ہونے لگے، تو آسمانوں سے پہلے زمین چیخنے لگتی ہے۔ اور جب چیخوں کو بھی سننے والا نہ رہے، تو تاریخ اپنا قلم اٹھاتی ہے، اور وہ سیاہی سے نہیں، خون سے لکھتی ہے۔

ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں، جہاں عالمِ اسلام کا ہر گوشہ درد سے کراہ رہا ہے، لیکن اکثر صاحبانِ اقتدار فقط ”بیان بازی“ کے کبوتر اُڑا کر اپنی سیاسی تسکین حاصل کرتے ہیں۔
مذمت، شدید مذمت،انتہائی شدید مذمت!
یہ جملے اب اتنے پرانے ہو چکے ہیں کہ قوم کی سماعتیں سُن ہو چکی ہیں۔
یہ الفاظ اب زخموں پر مرہم نہیں، نمک بن چکے ہیں!

کیا بیت المقدس کی بیٹیاں اب بھی صرف مذمت سے بچا لی جائیں گی؟ کیا غزہ کے ملبے تلے دبے جنازے اخبارات کے بیانات سے زندہ ہو جائیں گے؟ کیا ننھی فلسطینی بچی کی کٹی ہوئی انگلی آپ کی قراردادوں میں جوڑی جا سکتی ہے؟

نہیں!واللہ ہرگز نہیں!
اب اگر آپ نے صرف مذمت کی، تو یاد رکھیں.
تاریخ آپ کو ”غداروں کی نسل“ لکھے گی!

ایک گاؤں میں شدید بارش کے بعد طوفان آیا۔ مٹی کے گھر زمین بوس ہو گئے، بچے چیخنے لگے، مائیں خاک میں لت پت لاشوں پر بین کرنے لگیں۔

ایسے میں گاؤں کا چودھری، جس کی جیب خزانے سے بھری تھی، بڑے فخر سے ایک چھوٹی سی بالٹی لیے ایک خستہ حال گھر کی دیوار پر پانی چھڑک رہا تھا۔

ایک دیہاتی نے حیرت سے پوچھا:

”چودھری جی! یہ کیا کر رہے ہیں؟“

چودھری نے جواب دیا:
”بارش کے بعد دیوار پر مٹی جم گئی ہے، صفائی کر رہا ہوں، ثواب کا کام ہے۔“

دیہاتی نے آہ بھری اور کہا:
”چودھری جی، یہ ثواب ہمیں غریبوں کے لیے چھوڑ دیجیے۔ آپ کا کام چھڑکاؤ نہیں، پورے گاؤں کی چھتیں اٹھانا ہے۔ اگر آپ بھی دیواریں صاف کرنے لگیں گے، تو پھر چھتیں کون بنائے گا؟“

یہی تمثیل ہمیں یاد آتی ہے جب ہم یہ خبر پڑھتے ہیں کہ:

"وزیرِ اعظم پاکستان نے فلسطین پر اسرائیلی مظالم کی مذمت کی ہے!"

جنابِ عالی!
یہ مذمت والا ثواب ہمارے لیے چھوڑ دیجیے، یہ آپ کے حصے کا نہیں۔
ہم تو وہ عوام ہیں جو واٹس ایپ پر تصاویر شیئر کر کے، سٹیٹس لگا کے، بینر اٹھا کے، دعائیں مانگ کے، اور آنکھوں میں آنسو لیے مظلوم کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔

لیکن وزیر اعظم صاحب؟
آپ کو اللہ نے کرسی دی، اقتدار دیا، ادارے دیے، سفارت کاری دی، نیشنل ایکشن پلان دیا، طاقتور فوج دی، اور سب سے بڑھ کر عوام کا اعتماد دیا۔
اگر آپ بھی ”مذمت“ کا پرچم لے کر سوشل میڈیا کے کنارے بیٹھ گئے، تو پھر ”قیادت“ کا تاج کیوں پہنا ہے؟

ہم تو یہی کہیں گے جناب!
مذمت نہیں، مرمت کیجیے!
اور اگر مرمت نہیں کر سکتے تو کم از کم ایک دھمکی ہی دے دیجیے، کہ اگر اسرائیل باز نہ آیا، تو ہم اپنی تمام تر قوت کے ساتھ میدان میں اتریں گے۔

غزہ کا ایک بچہ، جس کا بازو ملبے تلے دب گیا، ”اللہ اکبر“ کہتے ہوئے دم توڑ گیا۔
اور اسی دن ہمارے حکمرانوں نے ”تشویش کا اظہار“ کیا!

کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہ قیادت ہے؟ کیا یہ امت ہے؟
یہ صرف شرمندگی ہے، گناہ ہے، بزدلی ہے، موت ہے.
جو زندہ لاشوں کے لباس میں ایوانوں میں گھوم رہی ہے!

پورا جسم ساکت، صرف زبان چلتی ہے.
جیسے کسی مردے کے چہرے پر ہنسی کھینچ دی گئی ہو۔

ہماری افواج تماشائی، حکمران ترجمان، علما خاموش، دانشور مصلحت پسند.
بس مظلوم چیخ رہے ہیں، اور اُن کی چیخیں آسمان کو چیر کر آپ کی میز پر گرتی ہیں۔

کیا آپ کی میز کانپتی نہیں؟
کیا آپ کی نیند میں خلل نہیں آتا؟
کیا وزیرِاعظم ہاؤس میں کوئی راتوں کو روتا ہے؟

تاریخ کا سب سے بڑا سبق کربلا ہے۔
امام حسینؓ بھی چاہتے، تو مدینے میں بیٹھ کر بیان دے سکتے تھے:
”ہم یزید کے اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہیں!“

لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا، کیونکہ وہ جانتے تھے.
باطل کے خلاف بیان نہیں، قربانی چاہیے!

آج اگر آپ امام حسینؓ کو یاد کرتے ہیں، تو اُن کے کردار کی قسم کھا کر بتایئے:
کیا آپ اپنے بیان سے اُن کا وارث بن سکتے ہیں؟
ہرگز نہیں!

غزہ کے بچوں کی چیخیں صرف اسرائیل کے خلاف نہیں،
یہ ہماری بےحسی کے خلاف بھی اٹھتی ہیں۔
ہر خاموشی، ہر تاخیر، ہر مذمت.
ایک اور تابوت کی کیل ہے!

اے امت کے نام نہاد رکھوالو!
اگر آج بھی آپ نے مرمت نہیں کی، تو کل آپ کے اپنے گھر جلیں گے،
اور دنیا آپ کے بچوں پر بھی صرف ”مذمت“ کرے گی!

جنازے بڑھتے جا رہے ہیں،
بیانات کے فولڈر بھرتے جا رہے ہیں،
لیکن نہ دل بدلا، نہ حکمتِ عملی، نہ کوئی فیصلہ!

کیا ہم واقعی انسان ہیں؟
یا صرف ”مظلوموں کی موت پر مذمت کی مشینیں“ بن چکے ہیں؟

ہر حکمران کو، ہر وزیر کو، ہر جنرل کو، اور ہر صاحبِ ضمیر کو یہ سوال خود سے کرنا چاہیے:
یہ دنیا صرف اعمال سے بدلے گی، دعوؤں سے نہیں۔

اگر آج بھی ہم نے کچھ نہ کیا، تو کل جب ہم اللہ کے سامنے ہوں گے،
تو غزہ کا بچہ ہمیں پکڑ کر کہے گا:

”میری ماں کو میرے ٹکڑے ملے.
تمہیں صرف بیان دینے کو وقت ملا؟“

اُس دن تمہاری آنکھیں آنسو بہائیں گی،
مگر بہت دیر ہو چکی ہو گی!

اے وزیرِاعظم صاحب!
اب وقت آ چکا ہے کہ یا تو سجدہ کرو. یا شمشیر اٹھاؤ!
یا تو امت کی قیادت کا حق ادا کرو. یا کرسی چھوڑ دو!
کیونکہ غزہ کے بچوں کے خون سے نفع لینے والے،
اللہ کی عدالت میں ”مذمت“ کا سہارا نہیں لے سکیں گے!

اے اقتدار کے اونچے برجوں میں بیٹھے لوگو!
یاد رکھو!
جب بیت المقدس کے بچے قتل ہو رہے ہوں،
اور تم ”مذمت“ کے تسبیح کے دانے گن رہے ہو،
تو تاریخ تمہارے ہاتھ میں خون نہیں،
خاموشی کا خنجر تلاش کرتی ہے!

کل کو جب تمہاری اولاد تمہاری قبروں پر فاتحہ پڑھنے آئے گی،
تو یہ سوال ضرور کرے گی:

”ابا! اس وقت آپ کے پاس سب کچھ تھا. مگر آپ نے کیا کیا؟“

اور اگر تم کچھ نہ کر سکے، تو یاد رکھو:
فلسطین کے ہر قطرۂ خون کا حساب تمہاری کرسی سے،
تمہارے قلم سے، تمہاری نیند سے، اور تمہاری آخرت سے لیا جائے گا!

یہ وقت مذمت کا نہیں، مرمت کا ہے! قیادت کا ہے! قربانی کا ہے!

اگر تم نہ جا سکے میدان میں، تو کم از کم اتنا کر دو.
کہ دشمن کو تمہاری دھمکیوں سے،
اور مظلوم کو تمہارے کندھے سے سہارا ملے!

امت مر رہی ہے،
القدس سسک رہا ہے،
غزہ جل رہا ہے،
اور ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں!

یہ آخری موقع ہے، آخری دروازہ، آخری دن.
ورنہ تاریخ صرف اتنا لکھے گی:

”جب امت کو بچایا جا سکتا تھا،
وہ مذمت میں مصروف تھی!“

-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H