مَن كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ
"جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
( صحیح بخاری و صحیح مسلم)
یہ حدیث متواتر (بہت زیادہ راویوں سے مروی) ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص نبی اکرم ﷺ کی طرف غلط بات منسوب کرے، چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی، وہ سخت گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کا انجام جہنم ہو سکتا ہے۔ اس لیے احادیث کی تحقیق کے بغیر انہیں بیان کرنے یا پھیلانے سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔ اور ایسے کلام سے پرہیز کرنا چاہیے جس کی نسبت حضور پاک صلی علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہو اور وہ بلا تحقیق ہو، خواہ وہ کلام کسی چیز کے فضائل میں ہو یا نعت و منقبت میں استعمال ہو،
قارئین! یہ تو رہی مختصر سی تمہید آئیے اب ہم مقصود تمہید سے بھی آپکو آشنا کراتے ہیں ۔
آج رات ایک پروگرام میں جانا ہوا جو کہ دستار بندی و استقبالِ رمضان کے عنوان سے منعقد ہوا تھا ، اس پروگرام میں ندوۃ العلماء کے مایہ ناز استاذ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا سنبھلی ندوی حفظہ اللہ تشریف لائے تھے ، مولانا نے اپنے خصوصی خطاب سے سامعین کو نوازا اور آپکا بیان کا اکثر حصہ قبر حشر و منزلِ آخرت اور اسکی تیاری پر مشتمل تھا۔ مولانا کے بیان سے قبل ایک نعت خواں کو مدعو کیا گیا کہ وہ نعت پاک کے چند اشعار پیش فرمائے پھر آگے کی کاروائی ہو، ان صاحب نے نعت کے اندر ایسے اشعار پڑھیں جن کا ثبوت کسی بھی حدیث کی کتاب سے نہیں ملتا اور نہ ہی کسی کے قول سے، وہ اشعار کے الفاظ کچھ یوں تھے ( کہ قبر میں منکر نکیر سے آقا کہیں گے یہ میرا امتی ہے) مراد یہ ہیکہ کہ حضور اپنے امتی کی قبر میں آکر ایسے الفاظ کہیں گے اور شفاعت کریں گے، قاری صاحب کی نعمت اختتام پذیر ہوئی، اب جب مولانا نے اپنا خطاب شروع کیا بلا کسی تمہید کے یہ حدیث سنائی ( مَن كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ
"جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے) اور کہا کہ ہمیں ان غیر مستند الفاظ کا استعمال قطعی نہیں کرنا ہے جنکی نسبت حضور صلی علیہ وآلہ وسلم سے ہو، اور یقیناً ان کا مقصد تنقید برائے تعمیر تھا ۔ اور آگے چلکے حضور صلی علیہ وآلہ وسلم کی بروزِ محشر شفاعت کا مفصل و مدلل واقعہ سنایا اور بھی دیگر اہم نکات پر روشنی ڈالی اور اپنی بات ختم کی۔
وضاحت اور پیغام
اسلام میں نبی اکرم ﷺ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کی طرف صرف وہی بات منسوب کریں جو مستند ہو۔ خواہ وہ حدیث ہو، نعت ہو یا کوئی اور بیان—ہر مسلمان پر لازم ہے کہ تحقیق کے بغیر کسی بھی بات کو نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب نہ کرے۔
وما توفيقي الا بالله.
فیض رشید لکھنوی
(متعلم معہد سیدنا ابی بکر الصدیق مہپت مؤ)
٢٤/٠٢/٢٠٢٥
-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H