Article Image

نہج البلاغہ، فصاحت و بلاغت کا شاہکار

نہج البلاغہ، فصاحت و بلاغت کا شاہکار

تحریر عبدالجبار سلہری

اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیے بغیر کسی بھی مسلمان کی ذہنیت کو حقیقتاً سمجھنا ممکن نہیں۔ تاریخِ اسلام کی بے شمار اہم کتابوں میں سے ایک کتاب "نہج البلاغہ" ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشادات، خطبات، خطوط اور مختصر اقوال کی جانب منسوب کی جاتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف علمی و ادبی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے بلکہ فصاحت و بلاغت کے حوالے سے بھی اپنی منفرد حیثیت رکھتی ہے۔یہ اپنی نوعیت میں اس قدر جامع، دقیق، اور دلوں کو مسخر کرنے والی ہے کہ تمام اہلِ زبان اور اہل ادب نے اس کی تعریف کی ہے۔عربی ادب میں فصاحت و بلاغت کی ایک خاص اہمیت ہے۔ فصاحت کا مطلب ہے کسی بات کو صاف، واضح اور بے کم و کاست طریقے سے بیان کرنا، جبکہ بلاغت کا مفہوم اس سے آگے بڑھ کر ہے؛ یعنی کسی بات کو اس انداز میں بیان کرنا کہ وہ نہ صرف مفہوم کی تکمیل کرے بلکہ دل و دماغ پر گہرے اثر چھوڑے۔ بلاغت میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ نہ صرف الفاظ صحیح ہوں، بلکہ اس کا انداز بھی مؤثر اور متاثر کن ہو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کلام میں ان دونوں خصوصیات کا امتزاج ہے۔

نہج البلاغہ کی کتابت کا کام انتہائی مشکل مراحل سے گزرا۔ اسے چوتھی صدی ہجری میں معتزلی اور امامیہ فرقہ کے عالم علی بن حسین بن موسی جو کہ علامہ شریف مرتضی کے نام سے مشہور تھے، نے مرتب کیا، بعض اہل علم کے نزدیک ان کے بھائی ابو الن محمد بن حسین بن موسی جو کہ سید شریف رضی (متوفی 406ھ) کے نام سے مشہور تھے، ان کی مرتب کردہ ہے۔ ان کا مقصد حضرت علی رضی اللہ کے اقوال و خطبات کو یکجا کرنا تھا تاکہ ان کی حکمت اور فلسفہ کو محفوظ رکھا جا سکے۔ تاہم، اس عمل میں مختلف مسائل اور مشکلات درپیش تھیں جن میں مختلف ذرائع سے مواد اکٹھا کرنا، اس مواد کی تصدیق کرنا اور اس کی ترتیب دینا شامل تھا۔ شیخ رضی نے نہج البلاغہ کی تدوین کے دوران جو مواد جمع کیا، وہ بنیادی طور پر مختلف کتابوں اور مصادر سے تھا مثلاً بہت سی باتیں فقط سینہ بہ سینہ چلی آ رہی تھیں جن کی استنادی حیثیت پر بھی کلام ہو سکتا تھا۔ ان اقوال کو جمع کرنے کے لیے انھوں نے مختلف اساتذہ اور راویوں سے مدد لی، جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اقوال کو نسل در نسل منتقل کیا تھا۔ ان میں سے کچھ اقوال کو تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف تشریحات کے ساتھ بیان کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں سند کے اعتبار میں کمی ہو واقع ہوئی۔ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں، اس کے مصنف معتزلہ کے بڑے داعیوں میں سے تھے اور یہ امامیہ فرقہ سے تعلق رکھتے تھے۔(لسان المیزان جلد 4 صفحہ نمبر 223) چنانچہ جہاں بعض محققین اس کتاب کو ایک معتبر ماخذ سمجھتے ہیں، وہیں کچھ نے اس کی سند پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ چونکہ نہج البلاغہ کی تدوین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے کافی عرصہ بعد عمل میں آئی، اس لیے اس میں بیان ہونے والے اقوال و خطبات کی تاریخ اور صحت کے حوالے سے بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ علامہ شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان الذہبی اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں کہ یہ کتاب  حضرت علی  کرم اللہ وجہہ کی طرف منسوب ہے، لیکن اس کی کوئی سند نہیں ہے، اور اس میں بعض باتیں باطل ہیں،  اگرچہ اس میں کچھ حق بھی ہے، لیکن اس میں ایسی من گھڑت چیزیں بھی ہیں کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا ہو۔ (سیر النبلاء جلد 13 صفحہ 231) اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اقوال زیادہ تر زبانی طور پر پھیلائے گئے تھے، ان کی تحریری صورت میں موجودگی کا امکان بہت کم تھا۔ بعض لوگوں نے اس کی استنادی حیثیت پر اس لیے بھی کلام کیا ہے کیوں کہ بعض جگہ شیخین کریمین علیہم الرضوان پر سب و شتم پایا جاتا ہے اور سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی شان سے بعید ہے کہ وہ ایسا کچھ کہیں۔

اس کے باوجود، نہج البلاغہ میں موجود اقوال کو مؤرخین اور علمائے کرام نے مختلف تاریخی ذرائع اور متون سے جوڑ کر ان کی تصدیق کرنے کی کوشش کی ہے۔ خاص طور پر وہ اقوال جو زیادہ مشہور اور متداول تھے، ان کی سند کا جائزہ لیا گیا۔ ان اقوال کی صحت کا تعین کرنے کے لیے مختلف روایات کا موازنہ کیا گیا، اور بہت سے اقوال کو مستند سمجھا گیا۔
اس کتاب یعنی نہج البلاغہ کی چند ایک خصوصیات درج ذیل ہیں:
اس کا کلام انتہائی سادہ اور صاف زبان میں ہے، جو ہر طبقے کے افراد تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے خطبات میں استعمال ہونے والے الفاظ بہت زیادہ پیچیدہ یا مبہم نہیں ہوتے، بلکہ انتہائی سلیس اور عام فہم ہوتے ہیں۔ اس سادگی کے باوجود ان کے کلام میں ایک گہرائی اور تاثیر موجود ہے جو اسے فصاحت کی اعلیٰ ترین سطح پر فائز کرتی ہے۔ حضرت علی نے اپنی باتوں میں وہ الفاظ استعمال کیے ہیں جو عوامی سطح پر بھی سمجھ آ سکیں اور صاحبِ فہم تک پہنچ کر انہیں سوچنے پر مجبور کر دیں۔ نہج البلاغہ میں استعارے، تشبیہیں اور دیگر بلاغتی عناصر کا استعمال بھرپور طریقے سے کیا گیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان استعارات اور تشبیہوں کے ذریعے نہ صرف اپنی بات کو واضح کیا ہے بلکہ ان کا مقصد معانی کی گہرائیوں تک پہنچانا اور قاری کے ذہن میں اثر چھوڑنا تھا۔ جیسے کہ ان کا مشہور قول "زندگی کا ہر لمحہ ایک نیا جہان ہے" ایک زبردست استعاراتی اظہار ہے جس سے زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں اور اس کی بے ثباتی کا تذکرہ ہوتا ہے۔

نہج البلاغہ کے خطبات اور مکتوبات میں ہر موضوع پر گہری نظر اور فلسفیانہ تفکر نظر آتا ہے۔ چاہے وہ خلافت و حکمرانی کے اصول ہوں، یا پھر انسان کی فطرت اور روحانیت کا بیان، حضرت علی نے ان تمام مسائل کو نہ صرف عام فہم انداز میں بیان کیا ہے بلکہ ان میں ایسے حکمت کے پہلو ہیں جو ان کی فصاحت و بلاغت کی عکاسی کرتے ہیں۔ حضرت علی نے اپنے خطبات میں فلسفیانہ حقیقتوں کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی فصاحت صرف لفظی سطح تک محدود نہیں بلکہ وہ فکری اور ذہنی سطح پر بھی اثر انداز ہونے کی طاقت رکھتے تھے۔ اس کتاب میں جو توازن اور ہم آہنگی نظر آتی ہے، وہ اس کی فصاحت و بلاغت کا ایک اور اہم پہلو ہے۔ ہر خطبے اور مکتوب میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ الفاظ، جملے اور معانی میں ایک ایسا توازن ہو جو نہ تو مفہوم کو پیچیدہ بنائے اور نہ ہی کسی بات کو آسانی سے نظر انداز ہونے دے۔ اس توازن کی وجہ سے ان کا کلام نہ صرف شوقینوں کے لیے دلچسپ ہے بلکہ اہل علم کے لیے ایک گہرے فکری عمل کا آغاز بھی کرتا ہے۔

نہج البلاغہ میں مختلف موقع پر مختلف نوعیت کی زبان استعمال کی گئی ہے۔ مثلاً جب لوگوں کے جذبات کو ابھارنے کی کوشش ہوتی ہے تو زبان میں شدت، عزم اور قوت ہوتی ہے، اور جب لوگوں کو عبرت دلانے کی بات ہوتی ہے تو زبان میں نرمی اور دلکشی آ جاتی ہے۔ گویا اس کی زبان میں اس قدر توازن قائم کیا گیا ہے کہ وہ اپنے خطاب کو اس کے مقصد اور موقع کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔

نہج البلاغہ نہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فصاحت و بلاغت کا عکاس ہے بلکہ یہ اسلامی تاریخ کی ایک اہم دستاویز بھی ہے۔ اس کی سندی حیثیت پر اگرچہ مختلف آراء موجود ہیں، مگر اس کا فکری اور ادبی معیار اس کی اہمیت کو کسی بھی شک سے بالاتر کر دیتا ہے۔ نہج البلاغہ کی فصاحت، اس کے استدلالی انداز، اور اس میں موجود اخلاقی و فلسفیانہ حکمت آج بھی دنیا بھر کے لوگوں کے لیے رہنمائی کا ایک سرچشمہ بنی ہوئی ہے۔ یہ کتاب ہمیشہ ایک اہم علمی و فکری ورثہ کے طور پر زندہ رہے گی۔

-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H