ہندستان میں چشتیہ سلسلے کی ابتدا اور فروغ میں علماء دیوبند کا کردار
(تحریر عبدالجبار سلہری)
ہندوستان کی تاریخ میں مختلف روحانی سلسلے اور صوفی تصوف کی متعدد شاخیں ہیں، جنہوں نے نہ صرف مذہبی تشکیلات کو متاثر کیا بلکہ سماجی اور ثقافتی زندگی پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان میں ایک اہم اور ممتاز سلسلہ چشتیہ سلسلہ ہے، جس نے ہندوستان کی روحانیت، تصوف اور اسلامی تعلیمات میں نمایاں تبدیلیاں پیدا کیں۔ اگرچہ چشتیہ سلسلے کی ابتدا ابتدائی اسلامی ادوار میں ہوئی، لیکن اس کے فروغ اور ترقی میں علماء دیوبند کا کردار نہایت اہم اور منفرد رہا۔
علماء دیوبند کی علمی، دینی، اور تصوف کی تعلیمات کا ہندوستان میں اسلامی فکری و ثقافتی میدان پر گہرا اثر رہا ہے۔ دیوبند کی تحریک نے نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کی مذہبی و دینی بنیادوں کو مستحکم کیا، بلکہ چشتیہ سلسلے کے روحانی پیغام کو بھی فروغ دیا۔ یہ مضمون ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لے گا کہ کس طرح چشتیہ سلسلے کی ابتدا اور اس کے فروغ میں علماء دیوبند نے اہم کردار ادا کیا اور اس کے اثرات کا تذکرہ عالمی تاریخ کے تناظر میں کیا جائے گا۔
چشتیہ سلسلہ تصوف کا ایک عظیم سلسلہ ہے، جس کی بنیاد حضرت خواجہ معین الدین چشتی (رحمت اللہ علیہ) نے رکھی تھی۔ خواجہ معین الدین چشتی کا ہندوستان میں تشریف لانا اور اس کے بعد ان کی تعلیمات کا پھیلاؤ ہندوستانی معاشرت میں ایک نئی روح پھونکنے کی طرح تھا۔ چشتیہ سلسلے کا بنیادی مقصد اللہ کی محبت اور انسانیت کی خدمت تھا، جس میں تصوف کے اہم اصول جیسے خود شناسی، تزکیہ نفس، اور اللہ کی رضا کی کوشش پر زور دیا گیا۔
مولاناعلی میاں ندوی ؒ فرماتے ہیں :
جس طرح خواجہ معین الدین چشتی ؒ ہندوستان میں سلسلۂ چشتیہ کے مؤسس وبانی ہے، فرید الدینؒ گنج شکر اس کے بعد اس سلسلہ کے آدمِ ثانی ہے ،آ پ ہی کے دو خلفاء سلطان المشائخ حضرت نظام الدین دہلویؒ اور شیخ علاؤالدین علی صابر کلیریؒ کے ذریعہ یہ سلسلہ ہندوستان میں پھیلا ،اور ان کے خلفاء واہل ِسلسلہ کے ذریعہ اب بھی زندہ وقائم ہے۔
چشتیہ سلسلے کی تعلیمات نے ہندوستان میں مسلمانوں کے عقائد و نظریات کو ایک نئی جہت دی۔ اس سلسلے کی خصوصیت یہ تھی کہ اس نے شریعت اور طریقت کے بیچ ایک متوازن راستہ اختیار کیا، اور اپنی تعلیمات میں دنیاوی فلاح کے ساتھ ساتھ اخروی کامیابی کی کوشش کی۔ اس کے بعد خواجہ معین الدین چشتی کے مشن کو ان کے خلفاء اور شاگردوں نے ہندوستان کے مختلف حصوں میں پھیلایا، جس کی وجہ سے چشتیہ سلسلہ ہندوستان میں تیزی سے پھیل گیا۔
علماء دیوبند کا تعلق ایک ایسی دینی تحریک سے ہے جو 1866 میں دیوبند کے شہر میں قائم ہوئی۔ اس تحریک کا مقصد مسلمانوں میں اسلامی تعلیمات کی صحیح تفہیم کو فروغ دینا تھا۔ دیوبند کی تحریک نے ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی روایات کے مطابق اسلامی تعلیمات اور عقائد کی طرف متوجہ کیا، جس میں تصوف کے بھی اہم پہلو شامل تھے۔ دیوبند کا فلسفہ دین کی صحیح تفہیم، شریعت کی پاسداری اور اسلام کی اصولی تعلیمات پر مبنی تھا۔
علماء دیوبند کے نظریات اور تصوف کے ساتھ تعلقات کا ایک خاص پہلو یہ تھا کہ انہوں نے اسلامی طریقت کو اپنی بنیادوں میں شامل کیا۔ اگرچہ دیوبند کی تحریک بنیادی طور پر علمی و دینی اصلاحات پر زور دیتی تھی، تاہم اس میں تصوف اور چشتیہ سلسلے کے اصولوں کو بھی اپنانے کی گنجائش تھی۔ دیوبند کے علماء نے نہ صرف اسلامی فقیہت اور حدیث پر مہارت حاصل کی بلکہ تصوف کے روحانی پہلو کو بھی اپنی تعلیمات کا حصہ بنایا۔
چشتیہ سلسلے اور دیوبند کی تحریک میں ایک غیر معمولی ہم آہنگی تھی جو بعد ازاں ان دونوں کے تعلقات میں گہرے اثرات کا سبب بنی۔ چشتیہ سلسلے کی ابتدا اور اس کے پھیلاؤ میں علماء دیوبند کا کردار اس وقت واضح ہوتا ہے جب ہم ان دونوں کے مشترک اصولوں کو دیکھتے ہیں۔ خواجہ معین الدین چشتی کی تعلیمات میں انسانیت کی خدمت اور اللہ کی رضا کی جستجو پر زور دیا گیا تھا، اور دیوبند کے علماء نے اس کا اصولی احاطہ کیا تھا۔
دیوبند کے علماء نے نہ صرف چشتیہ سلسلے کی روحانی تعلیمات کو قبول کیا بلکہ اس کے پیغام کو بھی اپنی دینی اصلاحات کے حصے کے طور پر اختیار کیا۔ اس کے نتیجے میں دیوبند اور چشتیہ سلسلے کے درمیان ایک نظریاتی ہم آہنگی پیدا ہوئی، جس نے دونوں کو ہندوستان کے مختلف حصوں میں ایک مشترکہ مقصد کی طرف رہنمائی فراہم کی۔ دیوبند کے علماء نے تصوف کی روحانیت کو نہ صرف احترام دیا بلکہ اس کے اہمیت کو تسلیم کیا اور اس کے پیغام کو پھیلانے میں فعال کردار ادا کیا۔
علماء دیوبند کا چشتیہ سلسلے کے فروغ میں ایک اہم کردار تھا۔ ان علماء نے نہ صرف چشتیہ سلسلے کی تعلیمات کو اپنایا بلکہ ان کے نظریات کو عوامی سطح پر پھیلانے کی کوشش کی۔ دیوبند کے علماء نے اپنے درس و تدریس کے ذریعے چشتیہ سلسلے کے اصولوں کو اجاگر کیا اور لوگوں کو اس سلسلے کے ذریعے روحانی سکون حاصل کرنے کی ترغیب دی۔
خلیق احمد نظامی تحریر فرماتے ہیں :
میاں جی نور محمد جھنجھانوی متوفی 1259ء کے دامن تربیت سے ایک ایسا شخص اٹھا،جس نے صابریہ سلسلہ کو عروج کی انتہائی منزل پر پہنچا دیا،حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے فیوض ہندوستان تک ہی محدود نہ تھے ،دیگر ممالک میں بھی اس کے اثرات پہنچے،ابتدائی تعلیم وتربیت کے بعد حجاز چلے گئے،اور وہاں سے واپس چلے آئے،تو ارشاد وتلقین کا ہنگامہ برپا کردیا ۔
دیوبند کے علماء میں خاص طور پر حضرت تھانوی (رحمت اللہ علیہ) اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی (رحمت اللہ علیہ) کا نام خاص اہمیت رکھتا ہے۔ حضرت تھانوی نے اپنی تصنیفات اور خطبات میں چشتیہ سلسلے کے روحانی پیغام کی تائید کی اور اس کے فوائد کو اجاگر کیا۔ ان کے مطابق، چشتیہ سلسلے کی تعلیمات انسان کو اللہ کے قریب لاتی ہیں اور اس کی روحانیت کو بیدار کرتی ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی تصوف اور چشتیہ سلسلے کے اصولوں کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ ہم آہنگ کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انسان کی روحانی ترقی اور تزکیہ نفس کے لیے چشتیہ سلسلے کی تعلیمات کو اپنانا ضروری ہے۔ ان کے مطابق، اللہ کی محبت اور انسانیت کی خدمت کے اصول کسی بھی معاشرتی یا دینی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔
علماء دیوبند نے چشتیہ سلسلے کی روحانیت کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق پیش کیا۔ انہوں نے اس بات کو سمجھا کہ تصوف اور چشتیہ سلسلے کی تعلیمات نہ صرف روحانی سکون کا ذریعہ ہیں بلکہ یہ معاشرتی اصلاحات میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ دیوبند کے علماء نے چشتیہ سلسلے کی تعلیمات کو ایک جامع نظریہ کے طور پر پیش کیا، جس میں فرد اور معاشرے دونوں کی فلاح کے لیے ایک توازن پایا جاتا تھا۔
یہ علماء صرف اپنے مریدوں اور پیروکاروں کے لیے نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک ہدایت کا چراغ ثابت ہوئے۔ انہوں نے تصوف کے ذریعے مسلمانوں کو دنیاوی لذتوں سے بے نیاز کرنے کی کوشش کی اور انہیں حقیقی سکون اور چین کی جانب راغب کیا۔
ہندوستان میں چشتیہ سلسلے کی ابتدا اور اس کے فروغ میں علماء دیوبند کا کردار انتہائی اہم تھا۔ دیوبند کے علماء نے نہ صرف چشتیہ سلسلے کی تعلیمات کو اپنایا بلکہ ان کے پیغام کو مزید تقویت بخشی۔ انہوں نے چشتیہ سلسلے کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ ہم آہنگ کیا اور اس کے روحانی فوائد کو عوام تک پہنچایا۔ اس کے نتیجے میں، دیوبند اور چشتیہ سلسلے کے درمیان ایک فکری اور روحانی تعلق قائم ہوا جو نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کی فلاح کا باعث بنا بلکہ اسلامی تصوف کے نئے پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا۔
یہ بات واضح ہے کہ علماء دیوبند نے چشتیہ سلسلے کے پیغام کو اس انداز میں پیش کیا کہ وہ نہ صرف روحانی سکون کا ذریعہ بنے بلکہ ایک کامیاب معاشرتی ترقی کے لیے بھی راہ ہموار کی۔ ان دونوں کا اشتراک ایک مثالی نمونہ ہے جس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ روحانیت اور دنیاوی ترقی کے درمیان ایک ہم آہنگی قائم کی جا سکتی ہے، اور اس میں علماء دیوبند کا کردار ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H