*منصب امامت کا لحاظ و ادب اور حضرت میاں جی نور محمد جنھجانوی نور اللہ مرقدہ*

خلیل الرحمن قاسمی برنی بنگلور

https://chat.whatsapp.com/HVmBQOsLVRYBHRGbA1EiGr

دیوبندیوں کے دادا پیر،قطب الاقطاب ،حضرت میاں جی" نور محمد "جنھجانوی قدس سرہ اپنے دور کے عظیم المرتبت مشائخ میں سے تھے ۔انتہائی سادہ اور منکسر المزاج بزرگ تھے۔خدا نے آپ کو لباس فقیری کے ساتھ شاہانہ رعب بھی عطا فرمایا تھا۔ اسی کے ساتھ اعلی درجے کے متقی اور ہر ہر قدم پر شریعت مطہرہ کا پاس و لحاظ رکھنے والے انسان تھے۔آپ نجیب الطرفین علوی تھے ۔آپ کا سلسلہ نسب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ملتا ہے۔ جنھجانہ ضلع شاملی آپ کا وطنِ مولد ہے۔سن ولادت 1201 ہجری مطابق 1786 عیسوی ہے۔ آپ اگرچہ باقاعدہ فارغ التحصیل عالم نہ تھے۔مگر حافظ قران اور زبانِ فارسی پر کامل عبور رکھتے تھے۔ حسن پور لوہاری ضلع مظفر نگر میں خدماتِ قران اوردیگردینی خدمات میں مشغول رہے۔ جاہ و شہرت سے بہت دور بھاگنے والے انسان تھے۔ اپنی ذات کو مخفی رکھتے۔ یادِ الٰہی میں مشغول رہنے کا خصوصی مزاج پایا تھا۔ اسی کے ساتھ صاحب کشف و کرامات بھی تھے ۔اتباع سنت میں اس قدر کمال حاصل تھا کہ 30 سال تک تکبیر اولٰی فوت نہیں ہوئی۔ 59 سال کی عمر میں عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف منتقل ہوئے۔ 1259 ہجری مطابق 1843 آپ کا سن وفات ہے ۔

منصب امامت کا لحاظ

آپ کے زمانے میں ایک شخص نہایت خوش گلو اورخوبصورت آوازکا مالک تھا۔ بہترین انداز میں نعت وغیرہ پڑھنے کا اس شخص کا معمول تھا۔ کسی نے حضرت میاں جی سے عرض کیا کہ: یہ شخص خوش گلو اور عمدہ آواز کا حامل ہے۔ نعت شریف(اور دیگر اشعار) بہترین انداز میں پڑھتا ہے ۔آپ بھی سن لیں !
حضرت میاں جی نے فرمایا: لوگ مجھے کبھی کبھی امام بنا دیتے ہیں اور غنا بلا مزامیر میں بھی علماء کا اختلاف ہے؛ اس لیے اس کا سننا خلافِ احتیاط ہے ؛لہذا میں اس کے سننے سے معذور ہوں -

دنیا سے بے رغبتی

حضرت میاں جی قدس سرہ اعلی درجے کے زاہد اور ہمہ وقت آخرت فکر رکھنے والے لوگوں میں سے تھے۔وہ ہر اعتبار سے فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول اور فکرامت میں مستغرق رہنے والوں میں سے تھے۔ آپ خدا کی محبت میں اس طرح دیوانے تھے کہ، دنیا کی ہر چیز سے بغض ہو گیا تھا۔ دنیاوی مال و دولت اور شان و شوکت سے آپ کو نفرت تھی۔یہی تعلیم آپ اپنے مریدین کو بھی دیا کرتے تھے؛ بلکہ آپ کی اہم ہدایت تھی کہ :
دنیاوی دولت اور جاہ و حشمت کے حصول کی تمناؤں کا خیال تک دل سے نکال دیا جائے ۔آپ خود حب مال سے کس طرح دورونفور تھے ،اس سلسلے کا ایک واقعہ نور محمدی صفحہ نمبر 66 پر مرقوم ہے ملاحظہ ہو :

ایک دفعہ ایک بڑا پہنچا ہوا سادھو حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ حضرت کا مہمان رہا۔ جب وہ جانے لگا تو بولا میاں ہماری زنبیل میں تھوڑی سی اکسیر ہے ۔یہ لے لے! تیرے پاس دھن کی کمی معلوم ہوتی ہے ۔اپنے کام میں لانا! حضرت جی نے فرمایا:
مجھے اس کی ضرورت نہیں، اپنے پاس ہی رہنے دو!
اس نے پھر کہا۔
حضرت نے انکار فرما دیا۔
جب تیسری بار یہی کہا اور اصرار کے ساتھ کہا،تو حضرت نے ایک ڈھیلا اٹھا کر سامنے والی دیوار پر مارا اور فرمایا:
یہ دیکھو! سادھونےنظر اٹھا کر اس طرف دیکھا،تو حیران رہ گیا ؛کیونکہ جس دیوار پر ڈھیلا لگا تھا، وہ دیوار سونے کی بن گئی تھی۔ یہ دیکھ کر وہ بولا: تب تو میاں تجھے اس کی ضرورت نہیں۔

اپنی تعریف و توصیف بالکل پسند نہ تھی


ایک دفعہ آپ کے مسترشدِ خاص حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نور اللہ مرقدہ نے آپ کی منقبت اور شان میں ایک نظم لکھی اور رعب و داب کی وجہ سے خود سے حضرت میاں جی کے سامنے پڑھنے کی جراءت نہ ہو سکی۔ کسی اور کے ذریعے وہ نظم حضرت کو سنوائی۔ تو حضرت نے فرمایا: خدا اور اس کے رسول کی منقبت اور ثنا بیان کرنی چاہیے!

لباس فقیری میں شاہانہ رعب

اہل دیوبند کے یہی دادا پیر اگرچہ زاہدانہ و فقیرانہ زندگی گزارتے تھے؛مگر خدا نے ان کو اسی لباسِ فقیری میں شاہانہ رعب و جلال عطا کیا تھا۔ اسی کا اثر تھا کہ جب کبھی آپ بازار کی طرف نکلتے تھے،تو سب دکاندار تعظیما کھڑے ہو جاتے، اور سلام کرتے ۔

ایک مرتبہ ایک ہندو دکاندار نے اعتراض کیا کہ: تم لوگ کھڑے کیوں ہوتے ہو ؟ہرگز کھڑے مت ہوا کرو !اس پر دکانداروں نے کہا کہ:اچھا آئندہ سے ہم ان کی تعظیم کے واسطے کھڑے نہ ہوں گے ۔
پھر ایک دن حضرت میاجی بازار کی طرف نکلے۔ وہ شخص بھی وہیں تھا۔ یعنی معترض بھی بازار میں موجود تھا؛ مگر یہ کیا کہ جیسے ہی حضرت پہنچے تو سب سے پہلے یہی معترض تعظیم کے واسطے کھڑا ہوا اور اسی کے ساتھ سب دکاندار بھی حسب قاعدہ کھڑے ہو گئے۔ جب حضرت چلے گئے، تو دکانداروں نے معترض سے پوچھا کہ:بھائی!تم ہی تو اعتراض کرتے تھے اور تم ہی سب سے پہلے کھڑے ہو گئے ؟
وہ شخص کہنے لگا میں مجبور ہو گیا تھا کھڑے ہونے پر،کیونکہ جس وقت حضرت تشریف لائے، تو مجھے محسوس ہوا کہ، جیسے کوئی شخص میرا کان پکڑ کر مجھ سے کہہ رہا ہے کھڑا ہو جا! بس پھر کیا تھا ،میں کھڑا ہو گیا۔
دارا وسکندر سے وہ مرد فقیر اولی
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللہی
(حکایات اسلاف دیوبند 32)

ایک کرامت

حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ :
حضرت میاں جی قدس سرہ کی ایک کرامت مشہور ہے: آپ کے یہاں کوئی تقریب تھی۔ حضرت پیرانی صاحبہ یعنی آپ کی اہلیہ محترمہ آنکھوں سے بالکل معذور تھیں ۔عورتوں کا ہجوم ہوا۔ ان کی مدارات میں مشغول ہوئیں۔ مگر بینائی نہ ہونے سے سخت پریشان تھیں۔ حضرت رحمہ اللہ سے بطور ناز کہنے لگیں کہ: لوگ کہتے ہیں کہ آپ ولی ہیں۔ ہم کیا جانیں۔ ہماری آنکھیں جب درست ہو جائیں، تب جانیں۔ حضرت رحمہ اللہ باہر چلے گئے۔ دعا فرمائی۔ اتفاقا حضرت پیرانی صاحبہ بیت الخلاء تشریف لے گئیں۔ راستے میں دیوار سے ٹکر لگی۔ وہاں غشی ہو گئی اور گر پڑیں ۔تمام جسم پسینے پسینے ہو گیا۔ آنکھوں سے بھی بہت پسینہ نکلا ۔ہوش آیا تو خدا کی قدرت سے دونوں آنکھیں کھل گئیں۔ اور نظر آنے لگا۔
یہ حضرت میاں جی رحمہ اللہ کی دعا کا یہ اثر تھا اور یہ حضرت رحمہ اللہ کی کھلی کرامت تھی ( امثال عبرت132)

https://whatsapp.com/channel/0029Va4Ow8qInlqSJbGemE2H

-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H