Article Image

القدس! ارض النبوت و البرکات!

القدس! ارض النبوت و البرکات

خون شہیداں سے لالہ زار ارض قدس و فلسطین تاریخی و جغرافیائی اعتبار سے نہایت قدیم اور زرخیز و مردم ساز سرزمین ہے، جس کی کوکھ میں ہمیشہ ایسے جانباز و وفا شعار لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جس پر معلوم دنیا تا صبح قیامت فخر و غرور کی عمارتیں کھڑی کریں گی۔ یہ دنیا کی شاید پہلی ایسی زمین ہے جس پر بیک وقت تین بڑے مذاہب عیسائیت، یہودیت اور اسلام کو بوجوہ عقیدت دعویٰ ملکیت حاصل ہے، مگر تاریخ کے صفحات اسلام کے دعویٰ کو مضبوط کرتے ہیں، اور بتاتے ہیں کہ فلسطین وہ نیر تاباں ہے جس کی شعاعیں صدی دو صدی قبل نہیں بلکہ ۱۳ سو صدی قبل کنعان کے اس قبیلے سے پہلی بار چمکی جسے مؤرخین نے یوں درج کیا ہے کہ ” یبوس جو بیت المقدس کو قبیلہ کنعان کی جانب سے دیا گیا پہلا نام تھا، اسے اس قبیلے نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے تین ہزار سال قبل آباد کیا تھا، ان کے جد امجد جنکے نام پر یہ شہر آباد کیا گیا انہوں نے جزیرۃ العرب سے فلسطین کی جانب چار ہزار سال قبل مسیح ہجرت کی تھی، فلسطین جس کا دارالسلطنت قدس یعنی یروشلم ہے اس کے ارد گرد ایک زمانے تک شام، اردن، بحر متوسط، مصر و لبنان وغیرہ واقع تھا مگر اب فلسطین کے اردگرد اسرائیل قابض ہے۔ قبضہ کر لینے یا یہودیا لینے سے کوئی سرزمین کسی بھی مذہب و ملت کی مستقل جائے عقیدت نہیں ہو سکتی، جب تک تاریخ کی جڑیں مضبوط و مستحکم اور حقیقت سے قریب تر نہ ہوں تب تک محض افسانوی روایات سنا کر اور بم و بارود سے دھمکا کر لوگوں کو محض ایموشنلی بلیک میل ہی کیا جا سکتا، اور آج دنیا خصوصاً امریکہ اپنے پٹھو کے ساتھ مل کر سالوں سے یہی کر رہا ہے، حالانکہ نابغہ زمانہ علامہ یوسف القرضاوی علیہ الرحمتہ نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ قدس و فلسطین دراصل نبیوں کی ہی زمین ہے، جس کے اصل و حقیقی وارث یہودی یا عیسائی نہیں بلکہ مذہب اسلام اور مسلمان ہیں۔ چنانچہ علامہ موصوف کے پورے بیان کا جو خلاصہ ہے وہ کچھ یوں ہے:
مسلمانوں کا قبلہ اول!
مسجد اقصی کو مسلمانوں کے لئے پہلا قبلہ ہونے کی حیثیت حاصل ہے، بعثت نبوی کے دسویں سال اسراء و معراج کے موقع پر نماز کی فرضیت کے بعد سے لے کر تحویل قبلہ کے حکم تک مسلمان بیت المقدس کی جانب رخ کر کے نماز پڑھتے رہے، مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کے بعد سولہ یا سترہ ماہ تک اسی کی جانب رخ کرتے رہے، یہاں تک کہ اللہ کی طرف سے حکم نازل ہوا: {وَمِنْ حَيْثُ خَرَجَتْ فَوَلٌ وَجْحَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ } [البقرة: 150] اس کے بعد خانہ کعبہ اور بلد حرام کو مسلمانوں کا قبلہ متعین کیا گیا۔ مدینہ منورہ میں آج بھی وہ تاریخی مسجد "مسجد القبلتین" موجود ہے جس میں مسلمانوں نے ایک ہی نماز بیت المقدس اور خانہ کعبہ کی جانب ادا کی۔
اسراء و معراج کی سرزمین!
یہ سرزمین اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب ﷺ کے سفر معراج کا اسے ایک اہم حصہ بنایا، تمام انبیاء کی آمد و امامت کا شرف اسے بخشا، اور اس کے ارد گرد بطورِ اعزاز برکتیں رکھ دیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: سُبۡحٰنَ الَّذِىۡۤ اَسۡرٰى بِعَبۡدِهٖ لَيۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ اِلَى الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِىۡ بٰرَكۡنَا حَوۡلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنۡ اٰيٰتِنَا‌ ؕ یہ واقعہ اس بات پر دال ہے کہ مسجد حرام سے معراج ممکن ہونے کے باوجود حقیقی سفر کا آغاز مسجد اقصیٰ سے کیا گیا، یعنی کہ یہ سرزمین سراپا رحمت و برکت ہے۔
قدس تیسرا سب سے عظیم شہر!
اسلامی دنیا کے تین عظیم و مقدس شہر ہیں، جن میں ایک مکہ مکرمہ جہاں مسجد حرام ہے، دوسرے مدینہ منورہ جہاں مسجد نبوی ہے، تیسرا مقدس شہر یہی فلسطین و قدس ہے جہاں مسجد اقصیٰ مسلمانوں کی عظمت کے گیت گا رہی ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کو چاہیے کہ تین مسجدوں کے علاوہ کسی کے لیے سفر نہ کریں، اول مسجد حرام دوسری مسجد نبوی تیسری مسجد اقصیٰ۔ اسی طرح اور بھی دیگر کئی روایات میں اس مقدس شہر کی عظمت بیان ہوئی ہے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس سرزمین کے اصل وارث و حقدار مسلمان ہی ہیں۔
جہاد کی سرزمین!
قرآن و حدیث کی تعلیمات بتاتی ہیں کہ قدس وہ سرزمین ہے جس کے متعلق اللہ کے رسول ﷺ نے متعدد دفعہ پیشین گوئی فرمائی، ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ قدس اسلام کے ہاتھوں فتح ہوگا اور مسلمان اس کی طرف ہجرت کریں گے، چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں نہایت شان و شوکت اور اطمینان سے یہ شہر فتح ہوا اور مستقل اسلام کے دامن عافیت میں آ گیا۔
بنی اسرائیل اور سرزمینِ فلسطین
سورۂ مائدہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِيْ کَتَبَ اللہُ لَکُمْ‘‘(المائدۃ : ۲۱)
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو قوم عمالقہ سے جہاد کرکے ان سے انبیاء علیہم السلام کی مقدس سرزمین لینے کے لیے ہدایت دی، تاہم انہوں نے قومِ عمالقہ سے خوف زدہ ہوکر جہاد سے پہلو تہی اختیار کر لی، لہٰذا اس آیت سے بھی انبیاء علیہم السلام کی مقدس سرزمین شام و فلسطین کا تقدس واضح ہوتا ہے۔
حضرت ابراہیم و لوط صلی اللہ علیہ وسلم اور سرزمینِ فلسطین!
حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ان کی قوم میں سے صرف حضرت لوط علیہ السلام ایمان لائے تھے، جو کہ حضرت کے بھتیجے تھے، نیز تفسیری روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب آتشِ نمرود نے حضرت کو متاثر نہ کیا تو نمرود نے مرعوب و مبہوت ہوکر حضرت سے کچھ تعرض نہ کیا، پھر بحکمِ خداوندی حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کے ہمراہ عراق سے شام کے علاقے کی طرف تشریف لے گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین اور حضرت لوط علیہ السلام موتفکہ( فلسطین سے ایک دن کی دوری پر واقع تھا)کی طرف تشریف لے گئے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَ نَجَّيْنٰہُ وَلُوْطًا إِلَی الْأَرْضِ الَّتِيْ بٰرَکْنَا فِيْہَا لِلْعٰلَمِيْنَ‘‘ (الانبیاء: ۷۱)
حضرت سلیمان علیہ السلام اور سرزمینِ فلسطین!
جس طرح حضرات انبیاء علیہم السلام کو حسبِ ضرورت معجزات دیے گئے، اسی طرح حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے منطقِ طیر، تسخیرِ جن و حیوانات اور تسخیرِ ریاح کا عظیم الشان و محیر العقول معجزہ عطا فرمایا تھا، جب حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے مسکن فلسطین سے کہیں دور نکلتے تو ہوا آپ کو آپ کے حکم سے آپ کے مسکن فلسطین میں دوبارہ پہنچا دیتی تھی۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَۃً تَجْرِیْ بِأَمْرِہٖ إِلَی الْأَرْضِ الَّتِيْ بٰرَکْنَا فِيْہَا وَ کُنَّا بِکُلِّ شَیْئٍ عٰلِمِیْنَ‘‘ (الانبیاء: ۸۱)
حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم علیہم السلام سرزمینِ فلسطین میں!
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَاُمَّہٗٓ اٰيَۃً وَّاٰوَيْنٰہُمَا إِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِيْنٍ‘‘(سورۃ المؤمنون: ۵۰) حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک نشانی کے طور پر جب بغیر پدر کے پیدا ہوئے تو اس بات کا چرچا ہونے کے بعد بیت اللحم کا بادشاہ آپ اور آپ کی والدہ کا دشمن ہوگیا، لہٰذا آپ کی والدہ آپ کو لے کر ایک اونچے ٹیلہ میں روپوش ہوگئیں، جسے قرآن نے ایک ایسا مقام قرار دیا ہے جو پرسکون بھی تھا اور وہاں چشمہ بھی جاری تھا، جس کے بارے میں اکثر مفسرین نے بیت المقدس، دمشق یا فلسطین کا مقام مراد لیا ہے۔ نیز تفسیری روایات میں آتا ہے کہ تقریباً بارہ سال آپ اور آپ کی والدہ وہاں مقیم رہے، جب بیت اللحم کا بادشاہ انتقال کرگیا تو آپ حضرات باہر تشریف لائے۔
سورہ التین اور سرزمینِ فلسطین!
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ وَطُوْرِ سِيْنِيْنَ وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِيْنِ۔‘‘ (سورۃ التین ۱-۳) ترجمہ: ’’ قسم ہے انجیر ( کے درخت) کی اور زیتون (کے درخت) کی اور طور سینین کی اور اس امن والے شہر (یعنی مکہ معظمہ) کی۔‘‘ (ترجمہ تفسیر ماجدی از مولانا عبدالماجد دریا آبادی)
اللہ تعالیٰ نے تاکیدا ً’’تین و زیتون‘‘ کی قسم کھا کر انسان کی تخلیق باحسنِ تقویم کو بیان فرمایا ہے، بیشتر مفسرین کے نزدیک تین و زیتون سے فلسطین و بیت المقدس کی طرف اشارہ ہے اور مراد اس سے وہ جگہ ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث کیا گیا اور انہیں وہاں انجیل دی گئی۔ ’’طور سینا‘‘ سے مراد وہ مقام ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رب جل مجدہٗ سے شرفِ کلامی حاصل ہوا اور آپ کو تورات دی گئی، ’’بلد أمین‘‘ سے مراد مکہ مکرمہ ہے، جہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا اور آپ پر قرآن کریم نازل ہوا اور یہ بات تورات میں بھی موجود ہے۔
اسی طرح اس سرزمین کے بابرکت و مقدس ہونے کے اور بھی کئی شواہد ملتے ہیں، مثلاً علامہ القرضاوی کے ہی مطابق یہ سرزمین پانچ اسباب کی بنا پر بابرکت سرزمین ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں: أولها : في آية الإسراء حين وصف المسجد الأقصى بأنه : هو الذي باركنا حوله .
وثانيها : حين تحدث في قصة خليله إبراهيم ، فقال : ونجيناه ولوطا إلى الأرْضِ الَّتِي باركنا فيها للعالمين [ الأنبياء : ۷۱ ]
وثالثها : في قصة موسى ، حيث قال عن بني إسرائيل بعد إغراق فرعون وجنوده : وأورثنا القوم الذين كانوا يستضعفون مشارق الأرض ومغاربها الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسنى على بني إسرائيل بما صبروا [الأعراف : ۱۳۷ ]
ورابعها : في قصة سليمان وما سخر الله له من ملك لا ينبغي لأحد من بعده ، ومنه تسخير الريح ، وذلك في قوله تعالى : ﴿ وَلسَلَيْمَانَ الرِّيحِ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ التي باركنا فيها ﴾ [ الأنبياء : ٨١ ] .
وخامسها : في قصة سبأ، وكيف من الله عليهم بالأمن والرغد، قال تعالى : وجعلنا بينهم وبين القرى التي باركنا فيها قرى ظاهرة وقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْر سِيرُوا فِيهَا لَيَالِي وَأَيَّامًا آمنين [ سبأ : ۱۸ ] . فهذه القرى التي بارك الله فيها هي قرى الشام وفلسطين۔ (القدس قضیۃ کل مسلم صفحہ نمبر 10/11)
8738916854

-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H