مٹی کے برتن

سنو سنو!!

مٹی کے برتن

(ناصرالدین مظاہری)

پہنچنا وہیں ہے جہاں سے شروعات ہوئی تھی ، نوعیت اور ماہیت کتنی ہی بدل لیں، نام بدل لیں ، کام بدل لیں ، جام و سبو بدل لیں ، خم و خمخانہ بدل لیں، مث ومے خانہ بدل لیں، گھر سے مٹی کے گھڑے ، مٹی کے کوزے ، مٹی کی کوٹھیاں اور مٹی کے برتن جدیدیت اور نئی نئی دولت کے زعم میں نکال باہر کریں مگر ایک وقت آتا ہے جب انسان پرانی چیزوں کی افادیت کو بدرجہ اتم سمجھ لیتا ہے تو پھر واپس اپنی اصل پر پہنچ جاتا ہے۔ خود ہی دیکھ لیجیے دھوپ سے بچنے کے لئے چھپر بنا چھپر کے بعد مٹی کی چھت بنی یہ مٹی کی چھت پختہ بنی، پختہ چھت میں سلنگ کی جدت پیدا کرلی پھر پنکھے کولر اور اخیر میں اے سی کی جگمگ اور آمد کے بعد جب جسم انسانی نے طبعی موسم وماحول سے متاثر ہونا شروع کیا تو ڈاکٹروں کے چکر اور کل شئی یرجع الی اصلہ یعنی پہنچا وہیں پہ خاکی جہاں کا خمیر تھا یعنی ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ جناب آپ کو روزانہ صبح خیزی کرنی ہے، ننگے پاؤں گھاس پھونس پر پیدل دوڑنا ہے دوپہر میں دو تین گھنٹے دھوپ میں بیٹھنا ہے ، کھانے میں بہت ہی ہلکی پھلکی سبزیاں اور سادہ زندگی غذائیں لینی ہیں، کپڑے ململ ومخمل کے نہیں پہن سکتے، بالکل سادہ کھدر اور کاٹن کا ہونا چاہیے ، بجلی سے دوری بنائیں، قدرتی ماحول اور موسم میں سانس لیں ، مٹی کے برتنوں میں کھانا پکوائیں ، مٹی کے برتنوں میں کھانا کھائیں ، مٹی کے بنے ہو، مٹی میں ملو گے ،مٹی سے دوری اختیار مت کرو ، مٹی کو چہرے پر ملنے سے چہرہ نکھرتا ہے ، مٹی جسم پر ملنے سے جسم کے فاسد مادے نکلتے ہیں، مٹی پر چلنے اور مٹی پر سونے کے بے شمار فوائد ہیں ، مٹی مٹی ہے چاہے ملتانی ہے چاہے ہندوستانی ہو لیکن ہاں کنکر پتھر کو تو جسم سے رگڑا نہیں جاسکتا اس لئے جسم کے لئے جہاں اچھی چکنی یا غیر چکنی مٹی ہے وہ ہی مفید ہے اور جہاں مٹی نہیں ہے تو وہاں جھرنوں پہاڑوں کے آبشاروں اور جھیلوں کا پانی بہت مفید ہے۔

میرے والد ماجد تو مٹی کو زخم کے علاج کے لئے تیر بہدف بتاتے تھے ، زخم کے بہتے خون پر مٹی ڈال لیتے تھے ، پھوڑے پھنسی کے لئے مٹی بہت مفید ہوتی ہے، ٹشو پیپر کی جگہ مٹی سے ہاتھ دھوتے تھے، مٹی کے ڈھیلوں سے استنجا تو ماضی قریب تک خوب ہوتا تھا اور تو اور میری ماں خدا جانے کہاں سے مٹی بٹور لاتی تھیں اور اس مٹی سے کپڑے دھولیتی تھیں ، مٹی کھانا حرام ہے لیکن اس کے بیرونی استعمال سے جسم کو آرام ہے۔

میں نے خود گاؤں کی مسجد میں مٹی کے لوٹے رکھے دیکھے ہیں جن کو علاقہ میں بدھنا کہا جاتا تھا ، میرے گھر میں میری والدہ مٹی کے بڑے بڑے گھڑے بنالیتی تھیں جن میں چاول اور آٹا رکھا جاتا تھا ، مٹی کی کوٹھیوں میں کچا غلہ رکھا جاتا تھا ، شادی بیاہ میں میں نے بھی مٹی کی رکاپی میں کھانا کھایا ہے اور یہ خوب یاد بھی ہے۔

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال واعمال میں مٹی اور مٹی کے برتنوں کا ذکر ملتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیشہ ، لکڑی وغیرہ کے برتن تو استعمال فرمائے ہی ہیں مٹی کے برتنوں کا استعمال بھی فرمایا ہے۔

مٹی کے برتن جن گھروں میں ہوتے ہیں وہاں بناوٹ نہیں ہوتی ، وہاں دکھاوا نہیں ہوتا ، وہاں اپنی دولت و ثروت کی تحسین اور جھوٹی تعریف کے پل نہیں ہوتے ، مٹی والے گھر کل بھی خود دار تھے ، آج بھی خود دار ہیں، جلال پور کے انور شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

سوتے ہیں بہت چین سے وہ جن کے گھروں میں
مٹی کے علاوہ کوئی برتن نہ ملے گا

ویسے تو آپ کہہ سکتے ہیں دنیا میں نظر آنے والی ہر چیز مٹی سے نکلی ہے اور اس کا انجام پھر وہی ہے کل تک ورلڈ ٹریڈ سینٹر آسمان کو دیکھ کر مسکراتا تھا آج برج خلیفہ نے اس کی جانشینی اختیار کرلی ہے ممکن ہے کل جدہ ٹاور برج خلیفہ کا جانشین بن جائے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ سب کچھ نہیں ہے ، یہ اونچے اونچے محل اور محلات در اصل مٹی ہی کے ذرات ہیں ان کی اصل پر دھیان دیجیے تو جسم پر جھر جھری طاری ہوجاتی ہے۔

کامیاب وہی ہے جو مٹی میں ملنے کی تیاری کرلے جو موتوا قبل ان تموتوا پر عمل پیرا رہے کیونکہ یہ مٹی وہ مٹی ہے جو ہر چیز کوماں کی آغوش کی طرح اپنے اندر سمو لیتی ہے۔

کیوں نہ خوئے خاک سے خستہ رہے میری انا
پا بہ گل ہوں اور خمیر معتبر مٹی کا ہے

-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H