Article Image

اسلام اور ذات پات

بسم اللّه الرحمن الرحيم

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى، آكسفورڈ

سوال: دار العلوم ندوة العلماء كے استاذ مولانا سلمان بجنورى ندوى مد ظلہ نے اپنے كسى دوست كا درج ذيل پيغام بهيجا:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

علمی دنیا کی شان اور حاملین علم کی پہچان حضرت استاذ صاحب! آپ کی تحریر وتقریر کے واسطہ سے آپ کا شاگرد محمد یحیی خان ندوی فیض آباد یوپی سے، امید کہ مزاج بخیر ہوں گے. اللہ تعالی آپ کی برکت سے مجھے بھی اپنے کلام سے سچا تعلق اور اس کا صحیح فہم نصیب فرمائے۔۔۔ آمین
بھارت کے مسلم معاشرے میں عموما یہ مزاج بنا ہوا ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں کا نکاح نسب کے لحاظ سے اپنی ذات وبرادری ہی میں ہوا کرتا ہے، دوسرے نسب میں ایک حد تک اس کے خلاف تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے! تقوی وطہارت اور دین داری بھی اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہے!
اس پس منظر میں پوچھنا یہ ہے کہ اسلام میں نکاح کے موقعہ پر نسب میں کفاءت کا کیا حکم ہے؟ ذات وبرادری میں یکسانیت کو بر قرار رکھنے کی غرض سے پیغام نکاح میں اگلے کی دینداری اور شریعت کی پاسداری کو بھی ٹھکرا دینا دینی اعتبار سے کیا گناہ کے زمرے میں آئے گا یا نہیں اور آخرت میں کیا اس رویہ پر باز پرس ہوگی؟ خاص طور سے بڑی تعداد میں دوسرے مذاہب کے لڑکے اور لڑکیاں جو اسلام قبول کر رہے ہیں تو وہ یہاں کے مسلم معاشرے میں نکاح کے لئے نسب میں اپنی کفاءت کیسے ثابت کریں گے؟ کتاب وسنت کی روشنی محقق ومدلل جواب عنایت فرما کر ماجور ہوں۔۔۔ جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم وأحسن إليكم ونفع بكم الأمة.

جواب:
خدا كے پيغمبر عليہم السلام اور ان كے وارثين دو بنيادى خوبيوں كے حامل ہوتے ہيں:
پہلى خوبى: فكرى جرأت: يعنى ان كى عقل اپنى خواہشات، اپنى قوموں كى عادت وثقافت، اور اپنے عہد كے رسوم وروايات كى بندشوں سے آزاد ہوتى ہے، وه فطرت سليمہ (جسے الله تعالى نے تخليق كا اساسى حوالہ بنايا ہے) كى روشنى ميں غور وفكر كرتے ہيں، وه حق وباطل اور خير وشر كو انسانى رجحان ونظام كے تابع نہيں كرتے، يہى وه خوبى ہے جسے وحى الہى كى تائيد حاصل ہوتى ہے، يعنى يہ برگزيده بندے اپنے افكار كا منبع فطرت، عقل اور وحى كو قرار ديتے ہيں۔
دوسرى خوبى: اخلاقى جرأت: يعنى حق وباطل اور خير وشر كى تمييز كے بعد وه كسى فرد، جماعت اور نظام سے ڈرے بغير اس پر بے كم وكاست عمل كرتے ہيں، اور اسى كى تبليغ كرتے ہيں۔
بر صغير ميں ذات پات كى بيمارى اس طرح رگ وجان ميں پيوست ہے جيسے شراب جاہليت اولى كے عربوں كى گھٹيوں ميں پڑى ہوئى تهى، ذات پات كى تفريق ہزاروں سال سے موروثى بن گئى ہے، انسانوں كى شرافت ورذالت كى پہچان اس كى ذات ہے، اسلام لانے كے بعد بهى يہاں كى قوميں اس مرض ميں اب تك اسى طرح مبتلا ہيں۔
علماء ومشائخ سے اس كى توقع تهى كہ وه اس بيمارى كا خاتمہ كريں، مگر ايسا نہيں ہوا، انہوں نے اپنى اپنى فقہى كتابوں سے اس بيمارى كى تائيد ميں جزئيات تلاش كيں، اور اس پر مذہبى ملمع سازى كركے اسے اور زياده مستحكم كرديا۔
كہا گيا كہ نكاح ميں اسلام نے كفاءت كا اعتبار كيا ہے، اسے بنياد بنا كر ذہنوں ميں راسخ كيا گيا كہ مسلمان دهوبى، مسلمان حجام، مسلمان جولاہا، قصائى، دهنيا وغيره رذيل قوميں ہيں، سيد، مغل، شيخ اور پٹهان شريف قوميں ہيں، اور ان شرفاء ميں بهى مدارج ہيں، يہ رذالت وشرافت نسلى وپيدائشى ہے، اور شادى ميں اس كا اعتبار ہوگا۔
كفاءت كا مسئلہ زياده سے زياده ايك معاشرتى مسئلہ تها، نہ كہ موروثى، اسى لئے صحابہ كرام رضي الله عنہم اور تابعين نے مختلف خاندانوں ميں شادياں كيں، حضرت سالم بن عبد الله بن عمر مدينہ كے فقہائے سبعہ ميں ہيں، ان كے والد قرشى ہيں، اور ان كى والده ايرانى، يہى حال حضرت على زين العابدين رحمہم الله كا ہے، ہمارے اسلاف ميں اپنے خاندانوں سے نكل كر دوسرے خاندانوں ميں شادياں كرنے كى اتنى مثاليں ہيں کہ ان كا احاطہ ممكن نہيں۔
بر صغير ميں اسے معاشرتى مسئلہ سمجها جاتا تو اس كى قباحت اتنى نہ ہوتى، اگر لڑكا عالم ہے اور لڑكى جاہل تو شايد ان كى كفاءت پر سوال اٹهے، اگر دونوں عالم ہيں يا دونوں كى معاشرتى پوزيشن ايك جيسى ہے تو دونوں ميں كفاءت كى بنياد پر امتياز كى كوئى وجہ نہيں، ليكن ايسا نہيں ہے، جولاہا شيخ الحديث ہو، اور شيخ اور پٹهان كى لڑكى كم خوانده ہو تب بهى وه شيخ الحديث اس لڑكى كا كفو نہيں ہو سكتا۔
ہندوستان كے ايك مفتى اپنى لڑكى كے لئے رشتہ تلاش كر رہے تهے جو زياده پڑهى لكهى نہيں تهى، انہيں ميرا ايك شاگرد پسند آگيا جو اچها عالم تها، انہوں نے مجھ سے كہا كہ ميں اس سے بات كروں، ميں نے عرض كيا كہ ضرور بات كروں گا، ليكن آپ ذہن ميں ركهيں کہ وه لڑكا ذات كا نائى ہے، يہ سنتے ہى ان كا چہره بدل گيا، اور مجھ سے فرمايا كہ اب بات كرنے كى ضرورت نہيں۔
علماء ومشائخ ميں يہ بيمارى صرف شادى تك محدود نہيں، بلکہ علمى ودينى كاموں ميں بهى وه ذات پات كى بنياد پر تفريق كرتے ہيں، بر صغير كے ايك بہت مشہور بزرگ ہيں، جنہوں نے تصوف وطريقت ميں اچهى خاصى تعداد كو خلافت دى ہے، ان كے مريدين ميں ايك صاحب نيچى ذات كے تهے، وه بزرگ خود اعتراف كرتے ہيں كہ ان كے يہ مريد خلافت كے اہل ہيں، مگر وه چهوٹى ذات كے ہيں، اور لوگ ان سے استفاده ميں جهجهكيں گے، اس لئے انہيں خلافت نہيں دى، يہ قصہ پڑھ كر ميرے تعجب كى كوئى انتہا نہ رہى۔
شايد كوئى ان بزرگ كے طرز عمل كے لئے يہ دليل پيش كرے كہ پيغمبر اپنى قوم كے شريف ترين خاندانوں ميں مبعوث ہوتے ہيں، لهذا مسلمانوں كے پيشواؤں كو بهى شريف ہونا چاہئے۔
يہ دليل اتنى پهپهسى ہے كہ اس كى ترديد كى ضرورت نہيں تهى، مگر ہمارے يہاں جو جہالت ہے وہاں ايسى ہى پهسپهسى دليلوں پر اصول دين كى بنياديں ركھ دى گئى ہيں۔
پيغمبروں كى بہت سى خصوصيات ہوتى ہيں جن ميں وه منفرد ہوتے ہيں، ان پر دوسروں كو قياس نہيں كر سكتے، پيغمبر تمام تخليقى عيوب سے پاك ہوتے ہيں، جبكہ مسلمانوں ميں حديث وفقہ كے بے شمار ائمہ گزرے ہيں جن ميں تخليقى عيوب تهے، جيسے عبد الرحمن بن ہرمز الأعرج، امام ابرہيم نخعى، قتاده بن دعامہ سدوسى، حماد بن ابى سليمان، سليمان بن مہران الأعمش، ابو معاويہ الضرير وغيرہم۔
مذكوره بزرگ نے ذات پات كى بنا پر ايك معمولى سلسلہ ميں خلافت دينے سے گريز كيا، جبكہ صحابہ كرام نے شہروں كى گورنرى بهى غلاموں كى دى، شرط اہليت تهى، نہ کہ نسلى برترى، حضرت عمر بن الخطاب رضي الله عنه كى خلافت كا ايك مشہور واقعہ يہاں نقل كيا جاتا ہے، مسلم شريف اور حديث كى دوسرى كتابوں كى روايت ہے كہ نافع بن الحارث (مكہ كے گورنر) نے حضرت عمر بن الخطاب رضي الله عنہ سے عسفان ميں ملاقات كى، حضرت عمر نے ان سے سوال كيا كہ آپ نے مكہ والوں پر كسے اپنا جانشين مقرر كيا؟ انہوں نے جواب ديا کہ ابن ابزى كو، حضرت عمر نے پوچها يہ ابن ابزى كون ہے؟ نافع بن الحارث نے عرض كيا كہ وه ہمارے غلاموں ميں سے ايك غلام ہيں، حضرت عمر نے تعجب كا اظہار كيا، تو نافع نے جواب ديا كہ ابن ابزى گرچہ غلام ہے مگر وه قرآن كريم اور فرائض كے عالم ہيں، حضرت عمر نے ان كے فيصلہ كى تصويب فرمائى اور فرمايا كہ تمہارے نبى كا ارشاد ہے كہ الله تعالى اس كتاب كے ذريعہ كچھ لوگوں كو بلند كرتا ہے اور كچھ لوگوں كو نيچے كرتا ہے۔
كاش وه بزرگ حضرت عمر كى اس سنت پر عمل كرتے، اور اپنے اس مريد كو خلافت دے كر ايكـ برى رسم كے خاتمہ كى عملى كوشش كرتے۔
ہمارے يہاں ايك طرف چهوٹى چهوٹى باتوں كے لئے انتهك كوشش كى جاتى ہے، اس پر پيسے بہائے جاتے ہيں، اسے حق وباطل كا مسئلہ بنا كر پيش كيا جاتا ہے، اور اس كى بنياد پر مسلمانوں كے اندر فرقہ بندى اور تعصب كو پهيلايا جاتا ہے، دوسرى طرف اصولى مسائل كو نہ يہ کہ نظر انداز كيا جاتا ہے، بلکہ ان كے اندر شر وفساد كے بيج ڈالے جاتے ہيں، پهر ان كى آبيارى كى جاتى ہے۔
ذات پات كى تفريق كى وجہ سے اسلام پر ايك بد نما داغ لگا ہوا ہے، بہت سے لوگ اس لئے بهى مسلمان نہيں ہوتے کہ ذات وپات كى جس ذلت سے وه بهاگ رہے ہيں وه مسلمانوں ميں بهى اسى طرح موجود ہے، يورپ وامريکہ ميں بهى نو مسلموں كو يہ مسئلہ درپيش ہے، بر صغير كے لوگ ان سے شادى كرنے كے لئے تيار نہيں ہے، ہمارے ايك نو مسلم شاگرد نے ايك گجراتى لڑكى سے شادى كى، گهر والوں نے بڑى مخالفت كى، جب وه كامياب نہيں ہوئے تو انہوں نے كچهـ علماء كى تائيد حاصل كى کہ لڑكى حنفى ہے، اور يہ نو مسلم حنفى نہيں ہے، چونكه دونوں ميں كفاءت نہيں لهذا يہ نكاح درست نہيں۔
متاخرين كى جن كتابوں كى بنياد پر كفاءت كے حيلہ سے ذات پات جيسى گهناؤنى بيمارى كو ہمارے معاشره ميں پالا جا رہا ہے، انہى كتابوں (ہدايہ وغيره) ميں يہ بهى لكها ہے کہ غير عربوں ميں كفاءت كا كوئى اعتبار نہيں، آخر اس جزئیہ كو كيوں چهپايا جاتا ہے؟ كاش اس جزئیہ كى تشہير كى گئى ہوتى، بلکہ كاش انسانوں كى مساوات كے متعلق الله ورسول كے ارشادات كو اہميت دى گئى ہوتى۔
جيسا کہ ميں نے شروع ميں عرض كيا کہ انبياء اور ان كے متبعين كى دو خوبياں ہيں ايك فكرى جرأت اور دوسرے اخلاقى جرأت، جب تك ہم ان دونوں جرأتوں كو كام ميں نہيں لاتے اس وقت تك ہندوستانى معاشره كى اصلاح ممكن نہيں، اور اصلاح نہ ہونے كى صورت ميں ہم دوسروں كے اسلام ميں داخل ہونے، اور جو مسلمان ہيں ان كے ساتھ منصفانہ برتاؤ كرنے كى راه ميں ركاوٹ بنتے رہيں گے۔

-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H