دیوبند کے نام پر دھوکا: ایک المیہ
ابو اشرف علی گڈاوی
دیوبند، وہ عظیم علمی مرکز ہے جس کی تاریخ، اسلامی علوم کے بے شمار روشن چراغوں سے منور ہے۔ ہر سال ہزاروں طلبہ یہاں دینی علوم حاصل کرنے کے ارادے سے آتے ہیں، اور والدین اپنے بچوں کو اس امید کے ساتھ دارالعلوم دیوبند روانہ کرتے ہیں کہ وہ دین کے سپاہی بن کر لوٹیں گے، اسلام کی خدمت کریں گے، اور امت کے لیے ایک روشن مثال ثابت ہوں گے۔
انہی جذبات اور توقعات کے ساتھ میں کھتولی سے دیوبند کے ارادے سے نکلا، تو وہاں کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی دل میں اس ادارے کی عظمت اور محبت کے جذبات موجزن ہو گئے۔ وہاں کے نوجوان طلبہ کو دیکھ کر خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی کہ یہ روشن چہرے دین کی خدمت کے لیے اپنی زندگی کو وقف کر چکے ہیں۔ مگر انہی خوشگوار لمحات میں کچھ ایسے مناظر بھی نظروں سے گزرے، جنہوں نے دل کو بے چین کر دیا اور سوچوں میں ہلچل پیدا کر دی۔
بعض ایسے طلبہ کو دیکھ کر بہت افسوس ہوا جو تعلیم سے دور، اور دنیاوی مصروفیات میں مگن نظر آئے، اور بعض طلبہ نہ تو علمی حلقوں میں شرکت کرتے ہیں، اور نہ ہی کلاسوں میں جاتے ہیں۔ بلکہ دیوبند مدرسہ کے قریب، کرائے پر روم لے کر گزر بسر کرتے ہیں اور دن کا بڑا حصہ ہوٹلوں، چائے دکانوں یا کرکٹ کے میدانوں میں گزار دیتے ہیں۔ یہ مناظر دیکھ کر کافی افسوس بھی ہوا اور حیرانی بھی ہوئی کہ کس طرح یہ طلبہ اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں! یہ طلبہ سالہا سال اس طرح آوارہ گردی میں گذار دیتے ہیں اور آخر میں گھر واپس جاکر دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ دیوبند سے پڑھ کر آئے ہیں۔
یہ طلبہ نہ تو علم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی دین کی تربیت کا شوق رکھتے ہیں، بلکہ دیوبند کے مقدس نام کو اپنی آوارہ گردی کا پردہ بنا لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دین کی ترجمانی کا حق صرف وہی ادا کر سکتا ہے جو خود دینی اصولوں پر عمل پیرا ہو، جس نے دیوبند کی خاک حقیقی جذبے اور خلوص نیت سے چھانی ہو۔ ان کی یہ جھوٹی شناخت، جسے وہ علم کی سچائی کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، بالآخر بے نقاب ہو ہی جاتی ہے، اور یہ دین کے ترجمان تو دور، خود انہی کی نگرانی کرنے کی نوبت آ جاتی ہے۔
یہ المیہ ہمارے معاشرے کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے، والدین، اساتذہ، اور اداروں کو اس صورتحال کی نزاکت کو سمجھنا چاہیے۔ ایسے نوجوانوں کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ دیوبند ایک ذمہ داری اور ایک عہد کا نام ہے۔ یہاں رہنے اور پڑھنے کا مطلب ہے کہ وہ خود کو اس قابل بنائیں کہ دین کی خدمت کر سکے، حق کو بیان کرسکے، اور گمراہی کا پردہ چاک کر سکے۔ دین کی ترجمانی کا راستہ محنت، اخلاص اور تقویٰ کا راستہ ہے۔
لہذا نوجوانوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ دیوبند کی عظمت کو یوں برباد نہ کریں بلکہ اس کی حقیقت اور اس کی روایات کو سمجھیں۔ اس امانت کو دل و جان سے سنبھالیں اور اپنی زندگی کو بامقصد بنائیں، تاکہ ہمارے معاشرے کو حقیقی معنوں میں دیوبند کے نمائندے مل سکیں، جو علم کے چراغ بن کر امت کی رہنمائی کر سکیں۔ یوں ان کی راہیں بھی سیدھی ہوں گی اور معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی بھی جنم لے گی، ان شاءاللہ۔
-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H