کانفرنس تحفظ آئین کنونشن پر تبصرہ
اظفر منصور
آج دہلی کے اندرا گاندھی انڈور اسٹیڈیم میں جمعیت علماء ہند کی طرف سے ہمیشہ کی طرح ایک رسمی مگر عظیم الشان جلسہ بلایا گیا، جس کا عنوان تھا "تحفظ آئین کنونشن" اس کی صدارت خود امیر جمعیت جناب مولانا ارشد مدنی صاحب نے فرمائی۔ یہ پروگرام تقریباً ڈھائی گھنٹے تک چلا، جس میں طئے شدہ عنوان "تحفظ آئین" کے علاوہ کئی موضوعات پر خوب گفتگو ہوئی، یا پھر یہ کہہ لیں کہ جن لوگوں نے عنوان اور بینر دیکھ کر یہاں جانے کا فیصلہ کیا تھا ان کا وقت ضائع ہوا، کیونکہ ڈھائی گھنٹے کی جو لائیو ویڈیو ہم نے دیکھی اس میں مولانا ارشد مدنی صاحب کا پہلا بیان جس میں جمعیت علماء ہند کی تاریخ و کارنامے اور مقررین کو دئیے گئے عناوین کے علاوہ کچھ نہیں تھا، سب سے پہلے مقرر صاحب (مولانا ازہر مدنی صاحب) نے گفتگو شروع کی تو چار دس منٹ ادھر ادھر مثلاً مدرسے کی تعلیم، دینی تعلیم، اصلاح معاشرہ وغیرہ جیسے موضوعات کی سیر کر کے ناموس رسالتﷺ کے موضوع پر ٹہر گئے اور اپنی بات پوری کی۔ اسی طرح کئی مقررین نے تحفظ آئین کے نام پر جمع ہوئی بھیڑ کو مختلف عناوین کی سیر کرائی، کسی نے تاریخ جمعیت علماء ہند کے اوراق سنائے تو کسی کے خدمات کے صفحات گنوائے، کسی نے جمعیت کی طاقت و قوت تسلیم کرنے کی اپیل کی تو کوئی اس بات پر شکریہ ادا کرتے ہوئے رخصت ہو گئے کہ ان کی ایک آواز پر بیس پچیس کروڑ میں سے چند ہزار لوگ اسٹیڈیم میں جمع ہو گئے۔ پورا جلسہ ایک روایتی جلسہ سے کچھ زیادہ نہیں تھا۔ ہم نے جب یہ اشتہار دیکھا تھا تو امید جاگی تھی کہ ان شاءاللہ اب کی مرتبہ اسٹیج سے حکومت اور کارندوں کو صاف صاف یہ پیغام اور میسیج دیا جائے گا کہ اگر آئین و اصول سے چھیڑ چھاڑ کی تو ہم ایک بڑا احتجاج کھڑا کریں گے، ہر گلی محلے سے لوگوں کو نکال نکال کر سڑکوں پر لے آئیں گے۔ ہمیں یہ بھی امید تھی کہ اب کی مرتبہ ان شاءاللہ باقاعدہ تجاویز پاس کئے جائیں گے۔ مگر افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ناموس رسالتﷺ پر ہزاروں گستاخیوں کے بعد بھی خاموش رہنے والے لوگوں نے تحفظ آئین کے نام پر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت تو دے دیا مگر وہی بوسیدہ، فرسودہ، بے مطلب، بے مقصد، بے فائدہ اور فضول، جس میں سوائے پیسوں کے خرچ، قوم کو الو، اور اپنی شخصیت کی ناموری کے کچھ نہیں ہوا۔
صدر محترم نے آخر میں ہندو و مسلم اتحاد پر کچھ یوں زور دیا کہ گویا مسلمان ہی اس ملک کی سالمیت کے دشمن بنے ہوئے ہیں، مسلمانوں کی ہی وجہ سے برادران وطن پاگل ہو رہے ہیں، اور چن چن، تلاش کر کر کے انہیں قتل کر رہے ہیں، مساجد و مکاتب کو منہدم و مسمار اور غریبوں مسکینوں کو مفلوک و لاغر کر رہے ہیں۔ ارے صدر صاحب آپ کو تو یہاں یہ کہنا چاہئے کہ مسلمانوں ہم اپنا اتحاد جاری رکھیں مگر جب کوئی جان کا دشمن ہی بن جائے تو پھر اتحاد کو بالائے طاق رکھ کر اپنی حفاظت و دفاع کو ترجیح دینا۔ اس دنیا میں ایک مسلمان کی جان سے قیمتی کوئی چیز نہیں۔ مگر بہت افسوس کی بات ہے کہ پورے ڈھائی گھنٹے کے جلسے میں کوئی مؤثر تدبیر، مشورہ اور لائحہ عمل نہیں دیا گیا۔ قائدین بار بار عوام کا امتحان لے رہے ہیں، اور عوام ہر بار کامیاب ہو رہے ہیں، قائدین نے کہا کہ وقف بورڈ کو بچانے کے لیے ہمیں متحدہ طور پر آپ کے ساتھ اور سپورٹ کی ضرورت ہے، آپ ہمیں کیو آر کوڈ کے ذریعے ای میل کر کے مضبوط کریں، مسلمانوں نے کروڑوں کی تعداد میں میل بھیج دئیے، قائدین نے کہا کہ آؤ دہلی چلیں تحفظ آئین پر کچھ باتیں کریں گے عوام کی مطلب بھر تعداد پہنچ گئی، مگر آپ اپنے امتحان میں کب کامیاب ہونگے؟ ناموس رسالتﷺ پر حملہ ہوا عوام انتظار میں تھے کہ آپ انہیں اپنی دہلی لے چلیں گے کہ گستاخی رسول ﷺ کے خلاف باقاعدہ قانون بنوانا ہے، مگر یہ کیا؟ آپ نے تو خاموش رہ کر اِن کے ایمان کی چنگاری کو داؤ پر لگا دیا، ماضی میں کئی مرتبہ عوام کو آپ کی ضرورت پڑی مگر آپ نے مصلحت کا چورن دے کر انہیں خاموش کر دیا، مگر ایسا کب تک؟ کب تک جب اس ملک میں مسلمانوں کو ایک کاغذ کی ناؤ سمجھ کر بچوں کی طرح پانی میں بھگو بھگو کر مار دیا جائے گا تب تک؟ یا مزید...... صبح قیامت تک؟ اب آپ قائدین کو ہوش میں آنا چاہئے۔ اور مستقل کوئی مضبوط قدم اٹھانا چاہئے، پتھر کا جواب پتھر سے دیا جانا چاہیے۔ نہیں تو پانی سر سے اونچا ہو جائے گا۔
نوٹ! بعض باتیں اچھی اور خوش آئند ہوئی ہیں۔ 💙
-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H