سنوسنو!!
مدینہ منورہ: پہلی بارکی حاضری
(ناصر الدین مظاہری)
https://telegram.me/ilmokitab
۲۰۱۸ میں زندگی میں پہلی بار حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوا،یہ میرا پہلا سفر عمرہ تھا ،مکہ مکرمہ میں کچھ دن قیام کے بعد مدینہ منورہ حاضری ہوئی تھی، مدینہ منورہ میں مکہ مکرمہ سے زیادہ دن قیام کی سعادت ملی، خوب یاد ہے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے لئے روانگی ہوئی تھی تو دل مکہ مکرمہ کی جدائی پر رونے کے بجائے مدینہ منورہ کی زیارت اورباشتیاق میں بے قرار ہو رہا تھا، میں الحمدللہ دوران سفر کسی سے بھی چند منٹ میں بے تکلفی پیدا کرلیتا ہوں، میں نے بس میں سب سے آگے ڈرائیور کے بغل والی سیٹ پر اسی لئے قبضہ کیا تھا کہ سب سے پہلے مسجد نبوی کے گنبد و مینار پر میری نظر پڑے اور اس منظر کو اپنی آنکھوں کے ذریعہ دل میں بسا سکوں۔
چار پانچ گھنٹے کے بعد ہمارے یمنی ڈرائیور نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ دیکھو مسجد نبوی شریف کے مینار نظر آ رہے ہیں آہ!کیابتاؤں، کیا کشش تھی ان میناروں میں، کس دلکشی اور رعنائی تھی مسجد نبوی کے گنبدوں میں، ابھی روضۂ نبوی کا دیدار نہیں ہوا تھا کیونکہ مسجد نبوی کے مینار کی اونچائی بہت زیادہ ہے جب کہ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا گنبد کافی نیچے ہے، تھوڑی ہی دیر میں مسجد نبوی اور ہمارے درمیان بلند و بالا عمارتیں حائل ہوگئیں ،رات کا وقت تھا، یہی کوئی تہجد کے بعد کا وقت رہا ہوگا، ہماری بس الکرم ہوٹل کے سامنے رکی، سامان وغیرہ اتارا گیا، کمرے وغیرہ پہلے سے طے تھے اپنے کمرے پہنچ کر سامان رکھا اور بیتابانہ و مشتاقانہ وضو کے لئے تیاری کرنے لگا، مجھ سے میرے ایک بنگلوری دوست نے کہا کہ کیا ابھی مسجد نبوی چلو گے؟ میں نے کہاکہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا ارادہ ہی نہیں ہے، نہ کھانے کا فکر نہ چائے پانی کا احساس،چنانچہ وضو کرکے ہم ہوٹل سے نکل پڑے، بنگلوری دوست ہمارے ساتھ تھا وہ پہلے بھی حاضر ہو چکا تھا اس لیے رہنمائی ملتی رہی ،ہماری رہائش باب السلام گیٹ نمبر سات کے بالکل سامنے پل کے نیچے الکرم ہوٹل میں تھی ،خوشی کی بات یہ تھی کہ بمشکل دس منٹ کا پیدل راستہ رہا ہوگا۔
ہم دونوں تیر کے مانند ناک کی سیدھ چلتے رہے یہاں تک کہ اس لائن میں شامل ہوگئے جو جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارکہ میں صلوۃ وسلام کے لئے بنی ہوئی تھی، دھیرے دھیرے ہم روضۂ رسول سے قریب ہوتے گئے یہاں تک کہ بالکل مواجہ شریف پر پہنچ کر غایت ادب اور رقت کے ساتھ سلام پیش کیا، اس وقت ہٹو بچو کا سلسلہ نہیں تھا، لوگ بڑے سکون سے صلوۃ وسلام پیش کرکے آگے بڑھ رہے تھے۔ وہاں سے فارغ ہوکر مسجد نبوی میں داخل ہوا، تہجد کی اذان ہونے پر نماز تہجد پڑھ کر کافی دیر اذانِ فجر کا انتظار کیا، بھوک کی بیتابی آتشِ شوق میں شکست تسلیم کر چکی تھی، نماز پڑھ کر واپس ہوٹل پہنچا اور ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہوکر آرام کیا۔
مدینہ منورہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے لیے وہ وہ دعائیں اللہ تعالیٰ سے مانگی ہیں جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے لیے مانگی تھیں، بلکہ مدینہ منورہ کے لیے مکہ مکرمہ سے بھی زیادہ فضل مانگا، تسلیم و رضا مانگی، بخار سے پناہ مانگی، برکات مانگیں، انوارات مانگے، اللہ تعالیٰ سے اس کے رزق کے خزانے مانگے، یہ فرمایاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کوحرم قرار دیا تھا میں مدینہ منورہ کو حرم قرار دیتا ہوں۔
مدینہ منورہ اسلام کا قبلہ، ایمان کا گھر، ہجر کی زمین،حلال و حرام کے علم حاصل کرنے کا ٹھکانہ ہے ،یہ وہ شہر بابرکت ہے جوسب شہروں کو کھا جائے گا،یہاں منافق نہیں ٹھہر سکے گا، کفر نہیں رک سکے گا،قرب قیامت ایمان سمٹ کرمدینہ منورہ میں جمع ہو جائے گا، یہ شہر کفار کو اس طرح اپنے سے دور کردے گاجس طرح آگ لوہے کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے، ایک بڑا طبقہ ان بدنصیبوں کا بھی ہوگا جو فقر و فاقہ اور شدائد سے تنگ آکر مدینہ منورہ سے کوچ اختیار کرلیں گے حالانکہ انھیں معلوم نہیں کہ مدینہ منورہ دوسروں شہروں کی بہ نسبت ان کے لئے زیادہ بہترتھا۔
یہ شہر وہ چھلنی ہے جس سے منافق اس طرح چَھن جائیں گے جیسے آٹا چَھن جاتاہے، چنانچہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے کہ قیامت سے پہلے زلزلے کے تین جھٹکے محسوس ہوں گے، دجال مدینہ منورہ میں داخل نہ ہوسکے گا لیکن دجال کے ماننے والے خود ہی مدینہ منورہ سے نکل کر دجال کے پاس چلے جائیں گے۔
ہمیں اس شہرکی عزت اورعظمت میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، یہ وہ شہر ہے جوجناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک جسم کی خوشبو اور قدم مبارک کی عظمت ودولت سے مالامال ہے، یہاں بڑے بڑے اولیائے کرم نے تاعمر ریاضتیں کی ہیں، محدثین نے درس حدیث دیاہے، اسلاف نے عبادات کی ہیں، اسلام کاپایۂ تخت رہا ہے، میں تو یہی کہتاہوں کہ مدینہ منورہ سراپا نور ہے، یہاں کے مکین صحابۂ کرام کی اولاد ہیں، ان کی اولاد کو راحت وسکون پہنچانے کے لئے ہمارے اسلاف مدینہ منورہ میں خریداری کیا کرتے تھے تاکہ اس کے منافع سے صحابۂ کرام کی اولاد کو آسانی میسر ہو اور ان کی خوش خالی میں اضافہ ہوسکے۔
نو دس دن تک یہاں قیام رہا جب کوچ کا وقت ہوا؛ تب احساس ہوا کہ ابھی توقیام سے سیری ہی نہیں ہوئی ہے، ابھی تو مسجد نبوی، روضۂ نبوی، ریاض الجنۃ اور دیگر مقامات سے نظروں کو آسودگی حاصل نہیں ہوئی ہے، الرحیل الرحیل کے اعلان نے دل کی کفیت بد ل کر رکھ دی، بادلِ ناخواستہ بس میں سامان رکھا گیا، بے بسی کے ساتھ بس میں جاکر بیٹھ گیا، پوری بس بھری ہوئی تھی، آنسو تھے کہ تھمنے کانام ہی نہیں لے رہے، میرے بغل میں محمد سلیم بنگلوری بیٹھے تھے انھوں نے مجھے دیکھا میں نے انھیں دیکھا اور پھر ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے، مدینہ کی جدائی پر خوب رویا، ہچکیوں کے ساتھ رویا، سسکیوں کے ساتھ رویا، رویا کیونکہ رونا ہی زندگی ہے، ہماری بس رینگنے لگی، میری نظریں مسجد نبوی کے گنبد و مینار پر مرکوز ہوگئیں، بس چل پڑی تھی، کبھی مسجد نظر آ جاتی کبھی عمارات کی اوٹ میں ہو جاتی اور اس طرح تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ مدینہ منورہ سے باہر نکل کر شاہ راہ عام پر ہمارا قافلہ رواں دواں ہو گیا۔ دل مدینہ میں رہ گیا، جو بس میں خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا۔
(یکم نومبر 2024)
-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H