کتب انعامیہ یا مری بھیڑ خواجہ کے نام؟

سنوسنو!!

کتب انعامیہ یا مری بھیڑ خواجہ کے نام؟

(ناصرالدین مظاہری)

برصغیر کے دینی مدارس میں پڑھنے والے طلبہ وطالبات کو مختلف مواقع پرہونے والے پروگراموں ،فنکشنوں اور امتحانات میں پاس ہونے پرنہ صرف نقدانعامات دئے جاتے ہیں بلکہ بطور انعام کتابیں بھی دینے کامعمول ہے۔یہ دینی مدارس کے ذمہ داران کی طرف سے تشجیعی اورحوصلہ افزائی کے طور پردیاجانے والا انعام بچوں اور بچیوں کو مزید آگے بڑھنے اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے ،طلبہ ان انعامات کوبہت شوق اوردوق کے ساتھ سنبھال کررکھتے بھی ہیں اور کتابیں چونکہ ان کے پاس اُس عمرمیں بہت کم ہوتی ہیں اس لئے فرصت کے مواقع پرپڑھتے بھی ہیں ۔

اس سلسلہ میں میرا نظریہ تھوڑا سامختلف ہے ، میراماننایہ ہے کہ طلبہ کوانعامات اُن کے ذوق اوروجدان کومدنظرکھتے ہوئے دیناچاہئے مثلاً سائنس کے طالب علم کوآپ سائنسی کتابیں دیجئے،حدیث کے طالب علم کوحدیث اور اس سے متعلقہ کتابیں عنایت فرمایئے اسی طرح جو بچے بہت کم سن اور کم عمر ہیں انھیں آپ ابتدائی ،اخلاقی اور قصے کہانیوں والی دینی کتابیں انعام میں دیجئے۔

ہمارے دینی مدارس ماشاء اللہ انعامات کی تو بوچھار کردیتے ہیں لیکن نہ توطلبہ کی ذہنی اورفکری رعایت ملحوظ رکھی جاتی ہے نہ ہی ان کاذوق اورمزاج کبھی دیکھااور پرکھا جاتاہے کہ تمہارا ذہن اورفکردین کے کن موضوعات کی طرف چلتاہے ۔عموماً ہوتایہ ہے کہ ہرطالب علم کاذہن اوراس کاپسندیدہ موضوع الگ الگ ہوتاہے مثلاً بعض طلبہ تاریخ میں دلچسپی لیتے ہیں توبہت سے طلبہ کوسیرت سے لگاؤ ہوتاہے ،بعض درسیات اور شروحات سے محبت رکھتے ہیں توبعض تفاسیر اور احادیث سے عشق کی حدتک تعلق رکھتے ہیں۔اگر آپ حدیث کے طالب علم کو سائنس کی کتاب تھمادیں یاسائنس کے طالب علم کوفلسفہ کی گرہ پکڑادیں تووہ کس کام کی ہے۔

میں خوداپنا واقعہ بیان کرتاہوں مجھے تقسیم کنندگان نے ’’مولانا علی میاں کی متصاد تصویریں‘‘نامی کتاب انعام میں دیدی،مجھے بڑاعجیب لگا،میں یہ کتاب لے کراپنے کرم فرما حضرت مولانامفتی محمد خبیر ندوی مدظلہ کی خدمت میں حاضرہوا، اور پوری بات بتائی تومفتی صاحب نے نہایت سختی اور تاکیدکے ساتھ اس کتاب کو پڑھنے سے منع کردیا اوریہ بھی فرمایاکہ لوگوں کو شعور ہی نہیں ہے کہ کس طالب علم کوکس عمرمیں کون سی کتاب انعام یاہدیہ میں دینی چاہئے،یہ بھی فرمایاکہ ابھی آپ طالب علم ہیں آپ ہرمصنف کی مثبت کتاب پڑھئے کسی بھی مصنف کی کوئی بھی منفی کتاب مت پڑھئے ورنہ دماغ شروع ہی سے اپنارخ بدل لے گااور آگے چل کراپنے ماحول اور معاشرہ میں ’’عظو معطل‘‘ بن کر رہ جاؤگے۔چنانچہ آج تک اس کتاب کو کھول کرنہیں دیکھا۔

عام طور پر دینی مدارس میں طلبہ کوانعام میں دی جانے والی کتابوں کی حالت’’مری بھیڑ خواجہ کے نام‘‘ والی ہوتی ہے ،نہ توطلبہ سے کبھی پوچھا جاتاہے کہ تمہیں کون کون سی کتابیں مطلوب ہیں نہ ہی ان کامزاج معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ اکثر کتابیں ضائع ہوجاتی ہیں نہ طلبہ کوان کتابوں سے کوئی مناسبت ہوپاتی ہے نہ اہل مدرسہ کوکبھی توفیق ملتی ہے کہ فرادیٰ فرادیٰ طلبہ سے پوچھیں کہ آپ کوجوکتاب انعام میں دی گئی تھی اس کامطالعہ کیا یانہیں اگرکیاہے توکیاحاصل کیا، مصنف کون ہے، اسلوب کیسا ہے، موضوع کیاہے، کیااچھی چیزلگی وغیرہ وغیرہ۔

دینی مدارس میں پڑھنے والے طلبہ ویسے بھی درسیات کے بوجھ سے باہرنہیں نکل پاتے انھیں اتناموقع بھی نہیں مل پاتاہے کہ خارجی کتابوں کامطالعہ کرسکیں پھربہت سے مدارس میں اساتذہ نے کچھ ایسامزاج پہلے سے ہی بنایاہوا ہوتاہے کہ وہ درسیات کے علاوہ تمام تر کتابوں کے بارے میں ایسامنفی نظریہ بنادیتے ہیں کہ پھرطالب علم درسیات تک ہی محدود ہوکررہ جاتا ہے ، حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ درسیات کا تعلق صرف ادارہ کی چار دیواری تک ہے یہاں سے نکلنے کے بعدآپ کوتقریریں کرنی پڑیں گی، تحریریں لکھنی پڑیں گی،کتابیں لکھنی ہوں گی اوریہ سب چیزیں خارجی کتابوں کے بغیرممکن نہیں اس لئے بچوں کوکنویں کامینڈک تو بالکل نہیں بناناچاہئے انھیں تھوڑا تھوڑا ہر موضوع سے مناسبت ضروری ہے تاکہ بغلیں نہ جھانکیں، کہیں مارنہ کھائیں ،کہیں احساس کمتری کاشکار نہ ہوں اور ہرجگہ اپنے ادارہ اوراپنے اساتذہ کی تعلیم وتربیت کامظاہرہ کرسکیں۔

اس سلسلہ میں پہلے تودی جانے والی کتابوں کو’’بوجھ‘‘نہ سمجھا جائے ، جوچیز اپنے لئے پسندکی جائے وہی ان کے لئے بھی پسندکی جائے بلکہ ان کے لئے توخوب سے خوب ترکی تلاش میں رہاجائے،نورانی قاعدہ کے طالب علم کوآپ سراجی کی شرح تھمائیں گے توآپ اپنی حیثیت کھوئیں گے ،اسی طرح مفتی بننے والے طالب علم کوآپ شاہکارتقریریں یا منتخب تقریریں دیں گے توادارہ کی بدنامی کاذریعہ آپ بنیں گے۔کوشش کی کیجئے کہ پہلے طلبہ کے فکراورمستوی ٰ کومدنظرکھتے ہوئے طلبہ کی درجہ بندی کی جائے پھرکتابوں کی فہرست بنائی جائے ، پھر کتابوں کی خریداری کی جائے اورپھرطالب علم کووہ کتاب اس شرط اورصراحت کے ساتھ دی جائے کہ اس کامطالعہ کرکے اتنے دن میں بتاؤکہ کتاب میں کیا لکھا گیاہے اوربہتر تو یہ ہے کہ دس دس بیس بیس طلبہ کی جماعت کسی باذوق استاذ کی نگرانی میں کردی جائے کہ اپنے مطالعہ کے سلسلہ میں ان سے رہنمائی لیتے رہنا۔

موبائل کی اس چکاچوند اور ناقابل علاج لت کے زمانے میں میرا نظریہ کچھ ایسا ہوگیاہے کہ اب طلبہ کوخارجی کتابوں میں کسی ادیب اورافسانہ نگارکی ادبی کتابیں پڑھنے کی اجازت دیدینی چاہئے ،میرے زمانے میں تونسیم حجازی ، التمش ،صادق حسین اورالیاس سیتاپوری وغیرہ کی کتابیں اورہرقسم کے اخبارات پڑھنے پربھی پابندی تھی۔

اگرآپ طلبہ کوکتابیں دے رہے ہیں تواچھی کتابیں دیجئے خانہ پری تونہ کیجئے کیونکہ اس سے آپ کامقصدبھی پورانہ ہوگااوران کی سمع خراشی کے باعث بھی آپ ہی بنیں گے۔
میرے طالب علمی کے زمانے میں چارسال تک مدرسہ سے جوکتب انعامیہ ملی تھیں ان میں کئی کتابیں مکررہوگئی تھیں ،اس سلسلہ میں بھی دست بستہ عرض ہے کہ آپ کے پاس توطلبہ کو دی جانے والی ہرکتاب کی تفصیل موجودہے پھرکتاب مکررکیسے ہوگئی ، میں نے جب متعلقہ افرادسے اس سلسلہ میں عرض کیاتو روکھاساجواب ملاکہ اگرہم کتابیں اسی طرح بدلنے لگے اورحسب منشاء دینے لگے توہمارا کام بڑھ جائے گا۔نتیجہ یہ ہواکہ بہت بعدمیں مکرر کتابیں کسی ضلعی انجمن میں دے کرکمرہ کابوجھ ہلکا کیا تاکہ ان کی جگہ دوسری کتابوں کورکھاجاسکے۔

-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H