لفظ اہل اور اہلیان کی تحقیق:

لفظ "اہل" اور "اہلیان" کی تحقیق: حقیقت اور دلچسپ حقائق

تحریر از: ابو اشرف علی گڈاوی

زبان ایک زندہ حقیقت ہے جو انسان کی ثقافت، علم، اور تاریخ کو بیان کرتی ہے۔ اردو زبان میں اکثر الفاظ کے صحیح استعمال پر توجہ نہ دی جائے تو الفاظ اپنے اصل معنی کھو دیتے ہیں۔ آج کی اس دلچسپ گفتگو کا موضوع ہے دو ایسے الفاظ جنہیں ہم روزمرہ گفتگو میں استعمال کرتے ہیں: "اہل" اور "اہلیان"۔ لیکن کیا ہم واقعی انہیں صحیح طور پر استعمال کرتے ہیں؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

"اہل" عربی زبان سے اردو میں آیا ہے، جس کا مطلب "لوگ"، "خاندان" یا "افراد" ہے۔ مثال کے طور پر، اہلِ علم یعنی علم والے، اہلِ ایمان یعنی ایمان والے، یا اہلِ ادب یعنی ادب کے ماہرین۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ "اہل" بذات خود جمع کا مفہوم رکھتا ہے، یعنی اس میں پہلے سے ہی "لوگوں" کی تعداد شامل ہوتی ہے۔ لہٰذا، اسے مزید جمع بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ "اہلِ کراچی" کہنا کافی ہے۔

معروف مزاحیہ شاعر دلاور فگار (مرحوم) نے ایک تقریب میں "اہلیانِ کراچی" کا لفظ سن کر مزاحیہ طور پر کہا: "اہلیان اہلیہ کی جمع ہوسکتی ہے، تو جب کوئی کہتا ہے اہلیانِ کراچی، تو ہم سمجھتے ہیں یہ کراچی کی بیویاں ہیں!"۔ یہ دلچسپ تبصرہ ایک گہری قواعدی غلطی کی نشاندہی کرتا ہے۔

حقیقت میں، "اہلیان" ایک غیر ضروری اور غلط لفظ ہے۔ "اہل" بذات خود جمع ہے، اور اسے مزید جمع بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ "اہلیانِ اسلام" یا "اہلیانِ کراچی" کہنا اسی لیے غلط ہے۔ اگر کسی کو جمع کا مفہوم زیادہ واضح کرنا ہو تو "اہالیانِ کراچی" یا "اہالیانِ اسلام" کہنا صحیح ہوگا، کیونکہ "اہالیان" عربی قواعد کے مطابق درست ہے۔

"اہل" کی جمع "اہالی" ہے، اور اس کی جمع الجمع "اہالیان" بنتی ہے، لہذا اگر کبھی زیادہ تعداد یا لوگ مقصود ہوں تو "اہالیان" کا استعمال درست ہے۔ مثال کے طور پر: "اہالیانِ محلہ" یا "اہالیانِ وطن" بالکل درست ہیں۔

اردو میں ایک ترکیب "اہالی موالی" رائج ہے، جو زیادہ تر منفی معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ الفاظ اصل میں بہت محترم معنی رکھتے ہیں؟ "اہالی" کے معنی "آقا"، "مالک"، یا "اہم شخصیات" ہیں، اور "موالی" کی اصل مولیٰ (آقا) کی جمع ہے، جس کا مطلب "مالک" یا "مددگار" ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ "مولیٰ" ان الفاظ میں شامل ہے جنہیں لغتِ اضداد کہتے ہیں۔ یعنی ایک ہی لفظ کے متضاد معنی ہوسکتے ہیں، جیسے مولیٰ کے معنی "آقا" بھی ہیں اور "غلام" بھی۔ اس ترکیب کا صحیح مطلب ایک وقت میں ادنیٰ و اعلیٰ کا ہوتا ہے، لیکن وقت کے ساتھ یہ ترکیب اردو میں عام ہوکر مختلف معنوں میں استعمال ہونے لگی ہے۔

زبان کی خوبصورتی اس کے درست استعمال میں ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم الفاظ کے صحیح معنی اور استعمال کو سمجھیں اور ان کے مطابق عمل کریں۔ "اہل" کا استعمال اگر قواعد کے مطابق ہو تو اردو کی لطافت اور خوبصورتی قائم رہتی ہے۔ "اہلیان" جیسے الفاظ سے گریز کرنا چاہیے، اور اگر ضروری ہو تو "اہالیان" کا استعمال مناسب ہے۔

لہٰذا، "اہلِ علم"، "اہلِ دیانت"، اور "اہالیانِ وطن" جیسے خوبصورت الفاظ ہماری زبان کی شان بڑھاتے ہیں، اور ہمیں ان کے صحیح استعمال کا دھیان رکھنا چاہیے۔ اللہ ہمیں اپنی زبان کو صحیح اور خوبصورت انداز میں برتنے کی توفیق عطا فرمائے۔
https://whatsapp.com/channel/0029VaBZ7EgCBtxHnbFVan1X

-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H