عزیزم جاوید، معزز خواتین و حضرات!




https://chat.whatsapp.com/HVmBQOsLVRYBHRGbA1EiGr

یوں لگتا ہے جیسے وہ دن خواب ہوئے جب ہندوستان سے لکھنے پڑھنے والے آیا کرتے تھے۔ ادبی محفلوں میں ان کی شرکت محفل کو منوّر اور معطّر کر دیتی تھی۔
سیاسی اندھیرے رفتہ رفتہ روشنی کی ایک چھوٹی سی کِرن بھی کھا گئے، وہ آوک جاوک بھی فسانہ ہوئی۔
اسی لیے جب میری جاوید سے ملاقات ہوئی تو بجائے خیریت پوچھنے کے پہلا سوال یہ کیا کہ ’’بھیّا کیسے آ گئے؟‘‘ میرے دل میں تو آج بھی ہندوستان کی بیش قیمت یادیں محفوظ ہیں اور یہ بھی یقین ہے کہ آج بھی ہندوستان میں فراخ دل اور نیک نیت لوگ موجود ہیں اور پاکستان بھی ایسے لوگوں سے خالی نہیں۔ مذہبی منافرت اور تعصّب نے دونوں طرف کا حساب برابر کر دیا۔ دلوں کی گنجائش، نفرتوں کی آلائش سے بھر گئی۔ اپنے دوستوں کو یاد کرتی ہوں تو عندلیب شادانی کا ایک شعر یاد آتا ہے:

رات اک بزم میں تھے جور و جفا کے شکوے
جی بھر آیا جو تری مہر و وفا یاد آئی

اِن حالات میں جاوید کا پاکستان آنا بشارت سے کم نہیں۔
جاوید کی کتاب ’’روشن دان‘‘ مجھے لندن میں مصطفیٰ شہاب کے ہاتھوں وصول ہوئی تھی۔ بہت ساری کتابوں کو الماری میں رہنا نصیب نہیں ہوتا۔ صاحبِ ذوق حضرات کی نظر پڑ جاتی ہے۔ اب پھر فاطمہ حسن کی مہربانی سے تینوں کتابیں وصول ہوئیں۔
معلوم نہیں کیوں مجھے قرۃ العین حیدر یاد آ گئیں۔ وہ بہت ناراض ہو جاتی تھیں جب ان سے ملنے والا یا والی ’’آگ کا دریا‘‘ کا ذکر کرتا، اور جھلّا کر کہتیں، ’’بھئی آگ کا دریا کو چھوڑیے، ہم نے اور بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ وہ پڑھیے...‘‘
جاوید صدیقی کی بات کیجیے تو سننے والا کہتا ہے، ’’وہی جاوید... جنھوں نے ’دل والے دُلہنیا لے جائیں گے‘ لکھی تھی...؟‘‘
ہاں بھئی ٹھیک ہے، بہت مقبول فلم تھی۔ ایسی فلم جو کبھی پرانی نہیں ہوتی۔ مگر جاوید صدیقی نے اور بھی ایسے کئی کام کر دیے ہیں جو پرانے نہیں ہوں گے۔ خاکے بھی لکھے، کہانیاں بھی اور خاکہ نُما بھی۔ اور وقت پڑنے پر دوستوں کے لیے شاعری بھی کی، مگر کثرتِ شعرا کے خوف سے نہ تخلص رکھا نہ چھپوائی۔
کہانیاں ابھی میں نے نہیں پڑھیں۔ مجھے تو خاکوں اور خاکہ نُما نے گرفتار کر لیا۔ ایسی گرفتاری جس کی قید سے چھوٹنے کو دل نہیں چاہتا۔ میں چونکہ خود بھی ٹوٹی پھوٹی شاعری کر لیتی ہوں اس لیے ہر ادب پارے کو اسی صنف کی عینک لگا کر دیکھتی ہوں۔
زبان تو ان کو ورثے میں ملی ہے۔ بمبئی نے گود لے لیا تو کیا ہوا؟ مولانا محمد علی جوہر سے رشتےداری تھی، جن کی تحریر کے علاوہ تقریر کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اندازِ تقریر ایسا تھا کہ جیسے زمین کے ساتھ ساتھ آسمان بھی تقریر سن رہا ہے۔ بقول شخصے، ’’انسان ابھی تک موت کو تسخیر نہیں کر سکا مگر بعض انسان ایسے کارنامے چھوڑ گئے جنھیں موت تسخیر نہیں کر سکی!‘‘
جاوید کے لکھے خاکوں میں مرثیے بھی ہیں، قصیدے بھی، شہر آشوب بھی اور غزل بھی۔ لکھنے والا جب اپنی تہذیب و تمدن کو دفن ہوتے دیکھتا ہے تو محلّات کھنڈرات میں بدلتے نظر آتے ہیں۔ گرمی میں گھٹن اور سردی میں سردمہری کو محسوس کرتا ہے تب الفاظ میں جان پڑتی ہے۔
جاوید صدیقی نے یہ سب کچھ دیکھا ہے اور اس سرمائے کو بے حد احتیاط سے محفوظ کر لیا ہے۔ اور اسی سرمائے کی چمک دمک ان کی تحریروں میں نمایاں ہے۔
کسی نے کیا اچھی بات کہی ہے کہ ہر بڑے کام یا ہر بڑی ایجاد میں اکثر و بیشتر کئی عالم فاضل اور سائنس داں شامل ہوتے ہیں۔ لیکن ادب صرف ایک ہی آدمی کا کارنامہ ہوتا ہے اور یہی کارنامہ لکھنے والے کو منصب عطا کر دیتا ہے۔ اور وہ منصب ہی یہ احساس دلاتا ہے کہ دنیا چاہے کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے، ادب ہر ترقی میں سب سے آ گے ہے۔
وہ سر چشمہ جو رُوح کے اندر پھوٹتا ہے اور پھر شہر کے شہر سیراب کرتا چلا جاتا ہے۔
یہ خاکے تاریخ کا خلاصہ بھی ہیں اور تہذیب کا مرثیہ بھی۔ خستہ حالی کا تذکرہ شہر آشوب کا نظارہ ہے۔ بعض جگہ جملوں میں طنز و مزاح کا امتزاج اور اختصار غزل لگتا ہے۔ کہیں کہیں بیان کی بے ترتیبی ایک لطف کے ساتھ نظمِ آزاد کا احساس دلاتی ہے۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ دُعا دوں کہ مبارک باد! چلو دونوں ہی دے دیتی ہوں۔
مبارک ہو جاوید! خوش رہو، اچھے رہو، لکھتے رہو۔

✍? زہرا نگاہ

(محترمہ زہرا نگاہ نے یہ مضمون 13جنوری 2023ء کو آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی میں ہونے والے اُس جلسے میں پڑھا جو مصنف کے اعزاز میں منعقد کیا گیا تھا۔)

-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H