معزز حاضرین بزم!
آج کے اس عظیم الشان پروگرام میں امیر جماعت اسلامی جناب سید سعادت اللہ حسینی صاحب کی ہندوتوا انتہا پسندی نظریاتی کشمکش اور مسلمان نامی کتاب کے جس حصے کی تلخیص کا حکم ہمیں ہوا ہے اس کے دراصل دو جزء ہیں ایک " کانگریسی تحریکات اور مفکرین۔ دوسرا "کمیونسٹ، سماج وادی اور دلت تحریکات۔
ہمارا پہلا حصہ ہے کانگریسی تحریکات و مفکرین اور ان کے نظریات۔
جبکہ دوسرا ہے: کمیونسٹ، سماج وادی اور دلت تحریکات کا ہندتو سے مقابلہ نتائج و انجام!
سامعین کرام!
کانگریسی تحریکات تعارف و نظریات!
کانگریس کو دراصل دو عہد میں تقسیم کر کے ہی سمجھا جا سکتا ہے، ایک آزادی سے پہلے کی کانگریس، دوسرے آزادی کے بعد کی کانگریس۔
پہلے عہد کی کانگریس کی تعریف یہ ہے کہ انیسویں صدی کی ابتداء میں ملک عزیز ہندوستان ایک دوراہے پر کھڑا تھا، یا پھر ایک ایسے ساحل پر جہاں پیچھے اپنے اپنے طور پر اہل حریت کی کوشش اور جد و جہد آزادی تھی تو آگے انگریزوں کا ظلم و استبداد اور ہندوستانیوں کی عزت نفس پر پیہم حملہ تھا۔ ایسے وقت میں ضرورت تھی ایک منظم و مستحکم تحریک کی، جس کے پلیٹ فارم سے تمام مجاہدین آزادی بیک آواز یہ صدا لگا سکیں کہ مختلف تہذیب و تمدن کا گہوارہ یہ ملک آزاد تھا اور عنقریب ان شاءاللہ دوبارہ اس کی روح آزادی کی لذت سے سرشار ہوگی۔ ہندوستان میں رہنے والے ایک ایک فرد کو ان کے حقوق حاصل ہیں، اور ہمیشہ حاصل رہنے چاہئے۔ اس ظاہری مقصد کے تحت 28 دسمبر 1885ء میں انڈین نیشنل کانگریس کا قیام ایک انگریز ملازم ایلن آکٹیوین ہوم کے ذریعے عمل میں آیا، مگر یہ کانگریس تحریک جسے زیر تلخیص باب و کتاب میں ہندتو کے مقابل تحریک کے طور پر دکھایا گیا ہے، کے مطالعہ تاریخ سے معلوم چلتا ہے کہ اس تحریک کی ضرورت دراصل برہمن کے لڑکھڑاتے پاؤں کی جنبش و حرکت کو استقرار و استحکام بخشنے کی خاطر محسوس کی گئی۔ کیونکہ تاریخی شواہد کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندو اپنے مفلوج سیاسی و سماجی نظام کے بدولت کبھی بھی ہندوستان پر حکومت کرنے میں خاطر خواہ کامیاب نہیں ہوسکے، جبکہ مسلمانوں نے یہاں برسوں حکومت کی۔ نسل پرستی، انتہاء پسندی اور طبقاتی سماجی نظام میں بٹی احساسِ کمتری کی شکار قوم کی رگوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت، بغض اور کینہ کئی صدیوں سے دوڑ رہا تھا جس کا اظہار برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے زوال سے جاری ہوتا ہے- اسی طرح انگریز بھی صدیوں تک روئے زمین کے مختلف حصوں میں کامیاب سلطنتیں قائم کرنے والی قوم ’’مسلمانوں‘‘ سے حد درجہ خائف تھے اور بالخصوص برصغیر میں مسلمانوں کے جذبۂ حریت سے بہت خوفزدہ تھے۔ چونکہ مسلمانوں کا آزادی و حریت پسندی کا جذبہ انگریز کی حکومت کے تسلسل کے لیے خطرہ تھا لہٰذا وہ بر صغیر میں مسلمانوں کو ہی اپنا دشمن سمجھتے تھے، انگریز نے موقع پا کر تقسیم کرو اور حکومت کرو (Divide and Rule) کی پالیسی کے تحت ہندوؤں میں مسلم دشمنی کو فروغ دیا تاکہ ان دو بڑی قوموں کو آپس میں لڑوایا جا سکے۔ لہٰذا انگریز نے ہندوں کو مسلمانوں کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اسی کے نتیجے میں نیشنل بلکہ برہمن کانگریس کا وجود پیش آیا۔ یہی وجہ ہے کہ معاصر اہل دانش و بینش نے اس تحریک کی کھل کر مخالفت بھی کی تھی۔ البتہ گزرتے وقت کے ساتھ اس تحریک میں قابل قدر تبدیلی بھی آئی جس کے نتیجے میں اس کے بطن سے کئی تحریکیں پیدا ہوئیں، مثلاً 1909 اور 1918ء میں کانگریس کے صدر رہے پنڈت مدن موہن مالویہ نے جب یہ محسوس کیا کہ کانگریس ہندتو کے مفادات کو نظر انداز کر رہی ہے تو انہوں نے 1915ء میں ہندو مہا سبھا کی بنیاد ڈالی۔ جی ہاں یہ ہندو مہا سبھا وہی تحریک ہے جس نے 1915ء سے لے کر اب تک ملک میں مسلمان دشمنی اور ہندتو انتہاء پسندی کی ایسی تخم ریزی کی کہ اب یہ شجر ثمر آور اسلام کے ایک ایک شعار پر حاسدانہ، بغضانہ اور عدوانہ نگاہ رکھنے لگی ہے۔ کانگریس کے بانیان میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر ہیڈگیوار کا بھی ہے، یہ وہی ڈاکٹر ہیڈگیوار ہیں جنہوں نے بتحقیق مرزا ریحان بیگ صاحب ہندوستان میں ہندتو یعنی انتہا پسندانہ ہندو قوم پرستی، برہمن بالادستی کے لیے 27 ستمبر 1925ء بروز جمعہ ناگپور میں راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ کی سرگرمیوں کا باقاعدہ اعلان کیا۔ اسی طرح کئی چھوٹی بڑی تحریکیں ہیں جو کانگریس سے اس لیے علاحدہ ہوئی ہیں کہ وہ انتہاء پسندانہ قوم پرستی کے نظریات کی حامی تھیں۔
سامعین کرام! تجزیہ نگاروں کے مطابق بیسویں صدی کے نصف میں جب ملک میں طلب آزادی کا نغمہ ہر فرد کے زباں زد ہوگیا تھا، اس وقت تک کانگریس بھی ایک سوفٹ، سیکولر اور تمام مذاہب و نظریات کی ترجمان تحریک میں بدل گئی تھی، اس کے مفکرین و بانیان نے مختلف سماجی، سیاسی اور اصلاحی تحریکیں چلائیں۔ کانگریسی تحریکات (Congress Movements) برصغیر پاک و ہند میں ہندوستانی قومی کانگریس کی طرف سے چلائی جانے والی تحریکات تھیں، یہ تحریکات مختلف ادوار میں شروع کی گئیں، جن میں بنیادی طور پر عدم تعاون تحریک، سول نافرمانی تحریک، اور بھارت چھوڑو تحریک وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح کانگریسی مفکرین میں وہ شخصیات شامل ہیں جنہوں نے کانگریس پارٹی کی پالیسیوں اور آزادی کے مقصد کے حوالے سے نظریاتی رہنمائی فراہم کی۔ اس لیے آزادی کے بعد اسے یعنی کانگریس کو اسٹرونگ ہندتو کے خلاف مقابلہ اور سد باب کی توقع کے ساتھ ایک طاقتور تحریک کے طور پر محسوس کیا جانے لگا۔ مگر اس کے باوجود ہندتو کے مقابلے میں اتحاد مذاہب کے نظریات کو جو ناکامی کا جو سامنا کرنا پڑا اس کے سلسلے میں مصنف کتاب نے جو اسباب و وجوہات بتائے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان مفکرین کے نظریات و خیالات کی غیر شفافیت یا غیر تسلسل نے سیکولر خیمے کے اس طبقے کو جو ادویتا ویدانت کے فلسفے کی باریکی کو ملحوظ خاطر نہ رکھ سکی، جس کی وجہ سے ہندتو کے مفکرین نے اسلام کے عقیدے میں عام ہندؤوں اجنبیت کا وہ عکس دکھایا کہ جس کے بعد اسلام بیزاری کی فضا کو عام کرنا آسان ہوگیا۔ اس کی کئی مثالیں نام بنام مصنف کتاب جناب سید سعادت اللہ حسینی حفظہ اللہ نے صفحہ نمبر 135 تا 156 کے درمیان بیان کیں۔
سامعین کرام!
کمیونسٹ، سماج وادی اور دلت تحریکات۔
ہندتو کے مقابلے میں کانگریسی تحریکات و مفکرین کی ناکامی کے بعد جن تحریکات میں ہندتو سے مقابلے کی اصل طاقت تھی ان میں کمیونسٹ تحریک، دلت تحریکیں، سماج واد تحریکات ایسی ہیں جن کے پاس مقابلہ کے لیے نظریات بھی موجود تھے، اور واضح متبادل و وژن بھی موجود تھا۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ایسی زبردست قوت رکھنے والی پارٹی تھی کہ آزادی کے بعد 1952ء میں جب پہلی لوک سبھا تشکیل پائی تو یہی جماعت سب سے بڑی اپوزیشن جماعت تھی، بلکہ دوسری اور تیسری لوک سبھا میں بھی یہ حیثیت برقرار رہی، حتیٰ کہ اس کی قوت کا حال یہ تھا کہ 1964ء میں جب یہ جماعت دو حصوں میں منقسم ہو گئی، اس کے باوجود 1967ء کے انتخابات میں اس کی جملہ نشستیں پارلیمنٹ میں بڑھ گئیں، مغربی بنگال میں مسلسل سات دفعہ یعنی 35 سال تک حکومت کی۔ مگر اس کے باوجود اب حال یہ ہے کہ یہ تحریک نہ تو نظریاتی طور پر ہندتو سے مقابلہ کر پائی اور نہ ہی عوام میں اپنی سیاسی ساکھ ہی بچا پائی۔ مصنف کتاب نے اس زبردست زوال کے تین اسباب بتائے ہیں، جس کی وجہ سے ایک طرف یہ تحریک موم بتی کی مانند اپنی عمر گنواتی رہی تو وہیں دوسری طرف ہندتو اور سنگھ نے ان کے ہی اصول و نظریات کو بنیاد و آلہ بنا کر ملک بھر نفرت و تعصب کی دانستہ تحریک چلائی۔
پہلا سبب!جسے خود ایک کمیونسٹ دانشور نے تجربہ کرن () کا نام دیا ہے، یعنی مساوات، جمہوریت، معاشی تقسیم وغیرہ سے بنیادی مصالحت کر کے اعلیٰ ذاتوں کے خوش حال طبقات کو خوش کرنے کی تڑپ نے انہیں عوام بیزار کر دیا، جس کے نتیجے میں ممتا بنرجی حقیقی لیفٹ کی شکل میں سامنے آئیں اور کمیونسٹ بنیادوں پر کمیونسٹوں کا ہی پتہ صاف کر دیا۔
دوسرا سبب! ہندوستان کے احوال سے مناسبت رکھنے والا بیانیہ تشکیل دینے میں ناکامی۔ چنانچہ دیگر تحریکوں نے کمیونسٹوں پر یہی تنقید کی کہ ان کی زبان و موضوعات (issues) ہندوستانی احوال سے مطابقت نہیں رکھتے۔
تیسرا سبب! مذہب ہندوستان کی ایک بڑی حقیقت ہے، یہاں مذہب بےزاری کے ساتھ عوام میں کوئی بڑا موبلائزیشن ممکن نہیں ہے، مگر کمیونسٹوں کی خام خیالی نے مسلمانوں کے تئیں انہیں سخت بنا دیا، جس وجہ سے ان کمیونسٹوں کا طرز عمل تیزی سے بدلنا شروع ہوا، اور انہوں نے اکثریتی ووٹ بنک کے استحکام کی خاطر اسلاموفوبیائی طرز عمل اور مواقف اختیار کرنا شروع کر دیا۔ نتیجتاً ہندتو کو قوت ملی اور یہ خود پورے ملک سے سمٹ کر اب مغربی بنگال میں پانچ فیصد سے بھی کم ہو کر عبرت نشان بن گئے۔
سماج واد کی تحریکات!
ملکی سطح پر دوسرے نمبر پر ہندتو سے مقابلے کی جس تحریک میں طاقت و قوت تھی وہ سماج واد کی تحریکات (socialist movements) ہیں، کیونکہ اس کے اصول و نظریات کے خالق مہاتما گاندھی، جئے پرکاش نارائن اور رام منوہر لوہیا جیسی عظیم شخصیات تھیں، مگر آزادی کے بعد جس طرح کا نظام حکومت پروان چڑھا اس سے مؤخر الذکر دونوں شخصیات بیزار ہوئی اور سماج واد کی جداگانہ شناخت کے ساتھ الگ تحریک چلائی، یہ دونوں حضرات سمجھتے تھے کہ نہرو کی قیادت میں کانگریس جس نظام کے نفاذ کی کوشش کر رہی ہے وہ مغربی اور یوروپی ماڈل کی نقل ہے، جو کہ ہندوستان جیسے کثیر المذاہب اور مختلف التہذیب ملک کے لیے قطعی موزوں نہیں۔ ان دونوں حضرات کا اہم ہدف و وژن یہ تھا کہ پس ماندہ طبقات چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں بااختیار بنیں، اس کے بغیر یہ جمہوریت کی ہر شکل کو نامکمل سمجھتے تھے۔ مگر بہت افسوس کی بات ہے کہ جہاں یہ دونوں مفکر مقصد میں تھے وہیں نظریات میں بہت مختلف تھے، جس کے نتیجے میں الگ الگ فکری دھارائیں بہنے لگیں۔ اور سماج واد کا تصور جماعت در جماعت تقسیم ہوتا چلا گیا، سوشلسٹ پارٹی، جنتا پارٹی اور جنتا دل جیسی شکلیں سامنے آ گئیں، اور مجموعی طور پر ان تمام کا مقصد صرف اور صرف حصول اقتدار رہ گیا، وہ بھی اپنے بانی و مؤسس جئے پرکاش نارائن اور رام منوہر لوہیا کے اصولوں کے خلاف۔ اسی کا فائدہ سنگھ نے اٹھایا، اور لمبے عرصے تک صبر کے ساتھ کام کرتے رہے اور سماج میں گہرے اثرات مرتب کئے۔
دلت تحریکات!
ہندتو کی تحریک کے مقابلے کی صلاحیت رکھنے والی ایک دلت تحریک بھی ہے، جو کہ مہاراشٹرا کے عظیم سماجی مصلح جیوتی باپھلے کے ذریعے انگرویزوں کے دور دلت کی آواز کے طور پر وجود میں آئی تھی، بعد میں اس تحریک کو سیاسی و نظریاتی بنیادیں مشہور رہنما ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے عطا کیں۔ ان کے بعد کانشی رام نے اس تحریک کو طاقت بخشی، اس مشن کے ضمن میں ان تمام کے مقاصد صرف یہی تھے کہ معاشرے سے ذات پات، اور عدم مساوات کا رویہ ختم ہو، اسی لیے ڈاکٹر امبیڈکر نے انڈی پینڈنٹ لیبر پارٹی، شیڈول کاسٹ فیڈریشن، ریپبلکن جیسی پارٹیاں بنائیں، لیکن اس کے باوجود انہیں کوئی کامیابی نہ مل سکی، مصنف کتاب جناب سید سعادت اللہ حسینی صاحب نے یہاں ذرا ٹہر کر ایک اچھی بات بتائی کہ ان قائدین حضرات نے جہاں اپنے افکار و سیاست کے ذریعے دلتوں کو بہت فائدے پہنچائے وہیں دلت تحریک کو بہت نقصان بھی پہنچایا۔
ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر دلت تحریک کو آزادی، مساوات اور اخوت کے تصور کے ساتھ آگے بڑھانا چاہتے تھے، اور ان کی خواہش تھی کہ پسماندہ طبقات اس ملک کی جمہوریت میں دیگر طبقات کے قدم بقدم چلیں۔ امبیڈکر کے یہ تصورات اگر باقی رہتے اور انہیں بنیادوں پر دلت تحریکیں آگے بڑھتیں تو فرقہ پرستوں کو سر اٹھانے کا ہرگز موقع نہیں ملتا، مگر بعد کی تحریکوں نے اپنی سرگرمیوں کی بنیاد کاسٹ کی شناخت کو ابھارنے نیز اعلیٰ ذات کی مخالفت و کشمکش کو اپنا ہدف بنا کر سیاست کرنے کا بنا لیا۔ جس کی وجہ سے فوری سیاسی فائدے تو حاصل ہوگئے مگر مستقل سکون کا قتل ہوگیا۔ امبیڈکر دستور بنانے کے بعد بھی لوک سبھا کا الیکشن نہیں جیت سکے، لیکن بی ایس پی نے ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ پھر اس کے بعد اسی ریاست میں دلتوں کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ تاریخ کے صفحات میں درج ہیں۔
مصنف کتاب نے لکھا کہ ہندوتو نظریات کی وسعت ہے کہ وہ ہر مذاہب کو قبول کر لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب بھیم راؤ امبیڈکر کے بدھ مت قبول کر لینے کے بعد دلت حضرات بھی بدھ ازم قبول کرنے لگے تو سنگھ نے بڑی شاطرانہ چال سے بدھ و وشنو کو بھی اپنے مذہب میں شامل کر لیا، اور عرصے کی محنت کا نتیجہ کامیابی کی صورت میں قریب سے دیکھنے لگے۔ لہذا اب دلت ایک شناخت اور آئی ڈینٹٹی کے طور پر سنگھ کے محبوب نظر بنے ہوئے ہیں، اور ہندوتو کے فروغ کا سبب بن رہے ہیں، آج بھی جو تحریکیں پسماندہ طبقات کے نام پر سماج میں وقار چاہتے ہیں، اور فرقہ پرستوں سے لوہا لینا چاہتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان کمیونسٹ، سماج واد اور دلت تحریکوں کی بنیاد کو مضبوطی سے از سر نو میدان عمل میں لائیں۔ بصورتِ دیگر ہندوتو مزید پھلتے اور کھولتے چلے جائیں گے۔
-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H