Article Image

ہندوستان کی موجودہ صورتحال اور حضرت تھانویؒ کے اقوال

https://chat.whatsapp.com/FJzf3IUx8dM4t003BnsTEA
گورے سانپ سے زیادہ زہریلا کالاسانپ ہوتا ہے۔اس لئےاگر گورے سانپ کو گھر سے نکال دیاجائے توکالا توڈسنے کوموجودہےاور جس کا ڈسا ہوا زندہ رہنا ہی مشکل ہے





ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودہ صورت حال اور حضرت تھانوی ؒ کے اقوال



ھندوستان کا ایک بہت بڑا طبقہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کی قیادت میں کانگریس سے بد ظن تھا ۔کانگریس کو مسلمانوں کے لئے زہر ہلاہل سمجھتا تھا کیونکہ اس میں مسلمانوں کے کٹر دشمن ہندوﺅں کا غلبہ تھا لیکن معلوم نہیں کہ کیوں اس تاریخی حقیقت کو ہندوستانی مسلمانوں سے چھپایا گیا ؟



حضرت تھانوی ؒ نے جمیعة علما ءہندکو بار بار متنبہ کیا کہ: ہندوﺅں پر بھروسہ کرنا غیر دانشمندی ہے۔انگریزوں سے زیادہ ہندو مسلمانوں کے دشمن ہیں ۔بر سر اقتدار ہونے کے باوجود انگریز مسلمانوں کے ساتھ کچھ ناکچھ رعایت کا معاملہ کرتے ہیں لیکن اگر یہ ہندو بر سر اقتدار آگئے تو وہ مسلمانوں کو جڑ سمیت اکھاڑ پھینکیں گے

خلافت کا معاملہ مسلمانوں کا ایک شرعی مسئلہ ہے لیکن تحریک خلافت کے دوران جو طریقہ کار اختیار کئے گئے نیزتحریک کو گاندھی کے ذریعے اچک لئے جانے کے سبب حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒنے اس تحریک سے علاحدگی اختیار کر لی تھی۔ چناں چہ ایک مجلس میں فرمایا ِ کہ تدابیر کو کون منع کرتا ہے تدابیر کریں مگرحدود شرعیہ میں رہ کرچونکہ مسلمانوں نے تدابیر غیر شرعیہ کو اپنی کامیابی کا زینہ بنایا ہے تو اس صورت میں اول تو کامیابی مشکل ہے اگر ہو بھی گئی تو ہندوﺅں کو ہوگی اور اگر مسلمانوں کو ہوئی توہندو نما مسلمانوں کو ہوگی

( الافا ضات یومیہ جلد ششم صفحہ 278)



تحریک خلافت کے دوران ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط بنانے کی غرض سے مسلمان بہت سی غیر اسلامی حرکات کے مرتکب ہوئے۔ انہوں نے ماتھے پہ قشقے لگائے اور جئے کے کفریہ نعرے بلند کئے۔ ہندوﺅں کی ارتھی کو کندھے دیئے۔ مساجد میں کافروں کو بٹھا کر منبر رسولﷺ کی بے حرمتی کی۔رام لیلا کا انتظام کیا ۔ایک عالم دین نے انکشاف کیا کہ

اگر ختم نبوت نہ ہوتی گاندھی مستحق نبوت تھا

یہ تمام قابل اعتراض امور مولانا کو سخت ناپسند اور ناگوار گزرے ۔اس لئے آپ کے ملفوظات میں بار بار ان باتوں کی مذمت ملے گی ۔

(الافاضات یومیہ جلد ششم صفحہ109)



مولانا تھانویؒ کا ایک اعتراض یہ تھا کہ مسلمان لیڈروں نے گاندھی کے اقوال کو حجت بنا لیا ہے۔ وہ لیڈر اس بات کے منتظر رہتے تھے کہ جوں ہی گاندھی کے منھ سے کوئی بات نکلے اس کو فوراً قرآن و حدیث پر منطبق کر دیا جائے

۔فرماتے ہیں:

اس تحریک میں کوئی چیز بھی تو ایسی نہیں جو کسی مسلمان یا عالم کی تجویز ہو، دیکھئے ہوم رول گاندھی کی تجویز ،بائیکاٹ گاندھی کی تجویز ،کھدر گاندھی کی تجویز ،ہجرت کا مسئلہ گاندھی کی تجویز غرض کہ جملہ تجویزیں اس کی ہیں ‘ان کا کام صرف یہ ہے کہ اس نے جو کہا لبیک کہ کر اس کے ساتھ ہوگئے ‘کچھ تو غیرت آنی چاہیے۔ ایسے بد فہموں نے اسلام کو سخت بدنام کیا ہے۔ سخت صدمہ ہے ‘سخت افسوس ہے‘ اس کی باتوں کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

( الافاضات یومیہ جلد اول صفحہ 89-90)



اس سلسلے میں آپ نے ایک واقعہ بیان کیا کہ سہارن پور میں ایک وعظ ہوا ۔ایک مقرر نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر سوراج مل گیا تو ہندو اذان نہ ہونے دیں گے تو کیا بلا اذان نماز نہیں ہو سکتی۔ کہتے ہیں گائے کی قربانی بند کر دیں گے تو کیا بکرے کی قربانی نہیں ہو سکتی ‘کیا گائے کی قربانی واجب ہے۔

یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد مولانا تھانویؒ نے اس طرز فکر پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے فرمایاکہ:

اس مقرر کے بیان میں ایک بات باقی رہ گئی ،اگر وہ یہ بھی کہہ دیتا تو جھگڑا ہی باقی نہ رہتا کہ اگر ہندوﺅں نے اسلام اور ایمان پر زندہ رہنے نہ دیا تو کیا بغیر اسلام اور ایمان کے زندہ نہ رہیں گے

یہی وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے دوست نما دشمن ہیں

( الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ 86)

ہندو مسلم اتحاد کے جوش میں کچھ مسلمانوں نے مشہور متعصب ہندو لیڈر سردھانند (جس نے آگے چل کر مسلمانوں کے خلاف شدھی کی تحریک چلائی ) کو جامع مسجد دہلی میں لے جا کر اس کا وعظ کروایا

۔ مولانا تھانوی ؒ کو اس واقعہ پر سخت صدمہ پہنچا اور آپ نے مسلمانوں کو شرم دلائی کہ وہ یہ حرکت کر کے منبر رسولﷺ کی بے ادبی کے مرتکب ہوئے ہیں

۔تحریک خلافت کے دوران ہندوﺅں کی دیکھا دیکھی مسلمان بھی اپنے لیڈروں کی جئے بولا کرتے تھے۔

مولانا تھانوی ؒ کے نزدیک لفظ جئے چوں کہ شعار کفرہے اس لئے مسلمانوں کا یہ فعل بھی شرعی نقطہ نظر سے قابل اعتراض تھا۔

( الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ 611 )

جو لوگ آپ کی تحریک خلافت میں عد م شمولیت پر اعتراض کرتے تھے آپ انہیں جواب دیتے کہ اگر تمہاری موافقت کی جائے تو ایمان جائے ہے اس میں حدود شریعت کا تحفظ نہیں

( الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ 65)



مولانا تھانوی ؒکے نزدیک ہندو مسلمانوں کے اول درجہ دشمن تھے۔ آپ کے ملفوظات میں جہاں کہیں ہندوﺅں کا ذکر آیا ہے آپ نے ان کے لئے سخت ترین الفاظ استعمال کئے ہیں ۔مولانا تھانوی ؒکو اس بات پر ہندوﺅں سے سخت گلہ شکوہ تھا کہ انہوں نے 1857 کی جنگ آزادی مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ لڑی اور وہ بھی اس میں برابر کے شریک تھے مگر جنگ آزادی کے خاتمے پر وہ نہ صرف انگریزوں سے مل گئے بلکہ انہوں نے مسلمانوں کی مخبری کر کے انہیں پھانسی پر چڑھوادیا

۔اسی سلسلے میں فرمایا کہ:”

یہ قوم (ہندو) نہایت احسان فراموش ہے مسلمانوں کو تو اس سے سبق سیکھنا چاہیے کہ انگریزوں کی خدمت کے صلے میں جو مسلمانوں کے ساتھ سلوک کیا وہ ظاہر ہے دیکھو غدر سب کے مشورے سے شروع ہوا جو کچھ بھی ہوا مگر اس پر مسلمانوں کو تباہ و برباد کر دیا ۔ بڑے بڑے رئیس و نواب ان کی (ہندو) بدولت تختہ پر سوار ہو گئے پھر تحریک کانگریس میں مسلمان شامل ہوئے بڑی بڑی قربانیاں دیں۔ اس کا صلہ شدھی کے مسئلے سے ادا ہوا ۔آئے دن کے واقعات اسی کے شاہد ہیں کہ ہر جگہ مسلمانوں کی جہاں آبادی مسلمانوں کی قلیل دیکھی پریشان کر دیا مگر ان باتوں کے ہوتے ہوئے بھی بعض بد فہم اور بے سمجھ ان کو دوست سمجھ کر ان کی بغلوں میں گھستے ہیں ۔)

الا فاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ (529



اور ایک مجلس میں ہندوﺅں کے اس طرز عمل کے متعلق فرمایا کہ ہندوﺅں کی قو م عالی حوصلہ نہیں ان کے وعدے وعید کا اعتبار نہیں ۔انگریزوں سے اگر دشمنی کی بنا یہ ہے کہ اسلام کے دشمن ہیں تو ہندو ان سے زیادہ مسلمانوں اور اسلام کے دشمن ہیں

(الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ (493-494



مولانا تھانوی ؒ اگرچہ انگریزوں کو مسلمانوں کا دشمن قرار دیتے تھے لیکن ہندوﺅں کے مسلم کش رویے کو دیکھتے ہوئے آپ اس قطعی نتیجے پر پہنچے تھے کہ ہندو انگریزوں سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں

۔ایک مرتبہ فرمایا کہ

گورے سانپ سے زیادہ زہریلا کالاسانپ ہوتا ہے۔اس لئےاگر گورے سانپ کو گھر سے نکال دیاجائے توکالا توڈسنے کوموجودہےاور جس کا ڈسا ہوا زندہ رہنا ہی مشکل ہے



الافاضات یومیہ جلد ششم صفحہ (197



مولانا تھانویؒ ہندوﺅں کے اس وجہ سے مخالف تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا تھا۔ ایک مجلس میں فرمایا کہ

بعض کفار پر تو مجھے بہت ہی غیض ہے۔ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا اور ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔ ہجرت کا سبق سکھایا۔ شدھی کا مسئلہ اٹھایا ۔مسلمانوں کو عرب جانے کی آواز اٹھائی ۔قربانی گاﺅ پر انہوں نے اشتعال دیا ۔یہ لوگ مسلمانوں کے جانی دشمن ہیں بلکہ ایمان ‘جان و مال مسلمانوں کی سب چیزوں کے دشمن ہیں۔

(الافاضات یومیہ جلد پنجم صفحہ 150)



۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ

جب تک ہم کلمہ پڑھتے ہیں تمام غیر مسلم ہمارے دشمن ہیں۔ اس میں گورے کالے کی قید نہیں

۔مولانا اس امر پر حیرت کا اظہار فرماتے کہ

ہندوستان میں دو کافر قومیں موجود ہیں پھر کیا بات کہ ایک ہی قوم سے اس قدر دشمنی دوسرے قوم سے کیوں نہیں؟

(الافاضات یومیہ جلد پنجم صفحہ 177)



ایک اور مجلس میں فرمایا

بعض لوگ کفار کی ایک جماعت کو برا کہتے ہیں اور بعض دوسری کو‘ میں کہتا ہوں دونوں برے ہیں ‘فرق صرف یہ ہے کہ ایک نجاست مرئیہ ہے اور دوسری غیر مرئیہ لیکن ہیں دونوں نجاست ۔( ایضاً صفحہ 256)



مولانا کے نزدیک اہل کتاب کی دشمنی اور مشرکین کی دشمنی کے درمیان ایک فرق موجود تھا ۔آپ کے خیال میں اہل کتاب دین کے دشمن نہیں دنیا کے دشمن ہیں گو اس کے ضمن میں وہ دین کی دشمنی بھی کرجاتے ہیں-اس کے مقابلے میں مشرکین دین کے دشمن ہیں اس کا معیار یہ ہے کہ جس قدر قوت اور سطوت اہل کتاب کو حاصل ہے ‘اگر مشرکین کو حاصل ہو جائے تو ہندوستان میں مسلمانوں کا بیج تک نہ چھوڑیں۔

(الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ 83)



ایک اور موقعے پہ فرمایا کہ

اگر ہندوﺅں کو انگریزوں کی طرح قوت حاصل ہوتی تو ہندوستان میں ایک بچہ بھی زندہ نہ چھوڑتے۔

(الافاضات یومیہ جلد سوم صفحہ 71)



ہندوﺅں کی مسلم دشمنی کو مد نظر رکھتے ہوئے مولانا تھانویؒ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ قیامت آجائے ہندو کبھی مسلمانوں کے خیرخواہ اور ہمدرد نہیں ہو سکتے۔

( الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ 638)

-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H