Article Image

کانپور کی ایک علمی شخصیت "سر نصیر الدین صدیقی“ تعلیم کا روشن ستارہ

کانپور کی ایک علمی شخصیت
"سر نصیر الدین صدیقی“ تعلیم کا روشن ستارہ
چند دنوں قبل عثمان قریشی صاحب نے ایک دعوت نامہ بھیجا کہ آپ کو چلنا ہے، ایکسچینج آفس میں کتاب کی رسم اجراء کا پروگرام ہے اور دواخانہ پر ملاقات میں زبانی بھی کئی مرتبہ کہا نیت بھی کر لی کہ ان شاءاللہ شامل ہونا ہے لیکن عین وقت پر کسی اور مشغولیت کی وجہ سے شامل نہ ہو سکے
البتہ 17/9/24 کو عثمان بھائی نے "سر نصیر الدین صدیقی تعلیم کا روشن ستارہ“ نامی کتاب لا کر مجھے ہدیہ کی اور کہا کہ یہ آپ کے لیے لائے ہیں بڑی خوشی ہوئی ایک تو کتاب دوسرے کانپور کے تعلق سے اور تیسرے کانپور میں تعلیمی اعتبار سے کام کرنے والی ایک اہم شخصیت، سرسری طور پر دیکھنے پر معلوم ہوا کہ میں جس پر آج کل کام کر رہا ہوں "مشاہیر اور علماء کانپور“ اس کے لیے یہ کتاب بہت معاون ہے
اشتیاق پیدا ہوا کہ مرتب سے بھی ملنا چاہیے کتاب کے دو مرتبین تھے عثمان بھائی سے پوچھا معلوم ہوا کہ ایک سر نصیر الدین صدیقی صاحب کے بیٹے بھی ہیں "جاوید نصیر صدیقی صاحب“ اور دلچسپ یہ کہ آج ہی شام میں کانپور کے تمام جلسوں کو لائیو چلانے والے جمعیت لائیو چینل کے ضمیر بھائی کے شاپ پر ملاقات ہو گئی بہت سی باتیں ہوئیں کام کی بھی باتیں ہوئیں اس موقع پر آپنے کچھ اور کتابیں بھی ہدیہ کیں تاکہ ہمارے ذریعہ دوسروں تک پہنچ جائے
سر نصیر الدین صدیقی ۱۲ ستمبر ۱۹۴۵ء کو اتر پردیش کے مردم خیز ضلع فتح پور کے ہسوہ بلاک کے موضع سمری کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھیں کھولیں۔ ان کے والد محترم کا اسم مبارک سلیم الدین صدیقی اور والدہ محترمہ کا نام زاہدہ بیگم ہے۔ ابتدائی تعلیم کا آغاز گھر سے ہوا جب کچھ بڑےہوئے تو ان کا داخلہ سوامی چند انٹر کالج ہسوہ میں کرایا گیا جہاں سے انہوں نے ۱۹۵۹ء میں آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ پھر کانپور آئے اور محلہ طلاق محل میں اپنے قریبی عزیز کے یہاں قیام پذیر ہوئے۔ صدیق فیض عام انٹر کالج میں داخلہ لیا اور ۱۹۶۵ء میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہوئے۔تعلیمی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے بھارتیہ ودیالیہ انٹر کالج، آچاریہ نگر کانپور سے ۱۹۶۸ء میں انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ انٹر میڈیٹ کی اہلیت کی بنیاد پر ۱۹۷۸ء میں ہی ان کو اونی کپڑوں کی مشہور زمانہ مل ”لال املی میں ملازمت مل گئی جس کے طفیل وہ اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے خود کفیل ہوئے
انہوں نے اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھتے ہوئے شہر کے حلیم کالج میں گریجویشن کی ڈگری کے حصول کے لئے داخلہ لیا، لال املی کی ملازمت اور اعلی تعلیم کے حصول کی کشمکش میں ایک سال گزرنے کے بعد سر نصیر الدین ١٩٦٩ میں شہر کے ہائر سکنڈری اسکول ” تعلیم الاسلام “ واقع بیکن گنج میں درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے اور یوں سر نصیر الدین صدیقی کی شخصیت ایک ہی فریم کے دو حصوں میں منقسم ہو گئی، پہلےحصے میں وہ معلم نظر آتے ہیں تو دوسرے حصے میں طالب علم تلاش معاش اور حصول تعلیم کی پر خار راہ گزر پر چلتے ہوئے انہوں نے ۱۹۷۴ء میں بی اے کی سند حاصل کی ۱۹۷۶ ء میں بی ایڈ مکمل کیا اور ۱۹۷۸ء میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرتے ہوئے اپناتعلیمی سفر مکمل کیا اور یکسوئی کے ساتھ تدریس و تعلیم کے لئے اپنی ذات کو وقف کر دیا سر نصیر الدین نے ایک سال کی مدت میں اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی سے تعلیم الاسلام کے پر نسپل سید مسعود احمد مرحوم کو متاثر و مطمئن کیا۔
حسن اتفاق سے شہر کی معروف شخصیت حاجی منت اللہ مرحوم نے سید مسعود احمد سے ملاقات کے دوران اپنے مدرسہ میں عصری تعلیم کے نظام کو قائم کرنے کے لئے ایک متحرک و فعال استاد کی فراہمی کی فرمائش کی۔ سید مسعود احمد نے اس عہدے کے لئے سر نصیر الدین صدیقی کا نام پیش کیا اور حاجی منت اللہ سے امیدوار کی ملاقات کرائی۔ حاجی صاحب نے تعارفی ملاقات سے مطمئن ہوتے ہوئے سر نصیر الدین کو مدرسہ دار لتعليم والصنعت (ڈی ٹی ایس) سے ۱۹۷۰ء میں وابستہ کر لیا۔ حاجی منت اللہ نے عصری تعلیم کے تعلق سے اپنے منصوبہ کو پیش کرتے ہوئے . D.T.S اسکول کے فروغ کی ذمہ داری سر نصیر الدین صدیقی کو سونپ دی ..................

-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H