اساتذہ کا علمی دن
(تحریر عبدالجبار سلہری جویا سلہریاں)
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غمخوار ہمارے
اساتذہ یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
معلم پوری قوم کا معمار ہوتا ہے نسلیں ان ہی کی زیرنگرانی پروان چڑھتی ہیں۔ سماج اور معاشرے کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے معلم اور اساتذہ کیسے رہے ہوں گے۔
پوری دنیائے انسانیت کے معلم اعلیٰ کی ایک حدیث طبرانی میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علم سیکھو اور علم کے لیے سکینت اور وقار سیکھو اور جس سے علم حاصل کرو اس سے تواضع سے پیش آؤ۔
ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے تعلیم کا ہونا بے حد ضروری ہے ۔ استاذ یا معلم وہ ہوتا ہے جو متعلم یا طالب علم کی مدد و معاونت اور رہنمائی کرتا ہے۔ درس و تدریس کے میدان میں معلم کی حیثیت ایک مربی و محسن کی طرح ہے۔ اسلامی معاشرے میں ہمیشہ استاذ کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ درس گاہ کوئی بھی ہو،معلم کے بغیر درس گاہوں کا تقدس بالکل ایسا ہی ہے، جیسے کہ ماں کے بغیر گھر۔
استاذ کی عظمت کو ترازوں میں نہ تولو
استاذ تو ہر دور میں انمول رہا ہے
انہی قوم کے اساتذہ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے دنیا کے کئی ممالک میں "اساتذہ کا عالمی دن" یا "ورلڈ ٹیچرز ڈے" ہرسال 5 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ یوم اساتذہ منانے کا مقصد معاشرے میں اساتذہ کے اہم کردار کو اجاگر کرنا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے دنیا بھرمیں کئی سیمینارز، کانفرنسیں اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
اسلام نے دنیا کو علم کی روشنی عطا کی،استاذ کو عظمت اور طالب علم کو اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا ہے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مقام و مرتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔
اساتذہ کی زمہ داریاں بیان کرتے ہوئے حضرت امام غزالی اساتذہ کو درج ذیل آداب کا خیال رکھنے کو لازم قرار دیتے ہیں۔
معلم شاگردوں کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آئے انہیں اپنی اولاد کی طرح سمجھے۔
استاذ کے قول و فعل میں مطابقت ہو۔
شاگردوں سے ان کے معیار اور ذہنی سطح کے مطابق بات چیت کرے۔
تعلیم کا صلہ طلب نہ کرے، نہ ہی خوشامد اور تعریف کی خواہش کرے۔
جہاں تک ممکن ہو طلبہ کو نصیحت کرتا رہے۔حکیمانہ انداز سے نصیحت کرے۔
سختی سے طلباء کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور معلم کا وقار برقرار نہیں رہتا۔
انتہائی اشد ضرورت میں بدنی سزا دی جائے مگر وہ بھی تین چھڑیوں سے زیادہ نہ ہو۔
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے جن علمی و تعلیمی روایات کی بنیاد رکھی۔ صحابہ کرام نے آپ کے اسوہ کے مطابق اسے آگے بڑھایا اور تعلیمی میدان میں انقلاب برپا کر دیا۔ صحابہ سے سیکھنے والے اساتذہ نے اس روایت کو قائم رکھا اور ایک ترقی یافتہ معاشرہ کی بنیاد رکھی۔ کئی علوم کے موجد ٹھہرے جس سے دنیا آج بھی راہنمائی حاصل کرتی ہے۔
تاریخ انسانیت میں یہ منفرد مقام اسلام ہی کو حاصل ہے۔ کہ وہ سراسر علم بن کر آیا اور تعلیمی دنیا میں ایک ہمہ گیر انقلاب کا پیامبر ثابت ہوا۔ تعلیم ہی کی بناء پر انسان اوّل کو باقی تمام مخلوقات سے ممیز اور برتر فرمایا۔
علم کے ذریعہ سے ہی آدمی کو اپنی اصل قدر و قیمت اور اپنے مقام بلند کا شعور حاصل ہوتا ہے۔ اگر وہ علم قرآن و حدیث کا ہو تو کیا کہنے۔ یہی وہ علم ہے جو آدمی کو خدا کی عظمت اور اس کی بزرگی کا احساس بخشتا ہے اور اسے اس بات سے باخبر کرتا ہے کہ اس کے رب کو اس سے کیا چیز مطلوب ہے۔ وہ خدا کی رضا اور اس کی خوشنودی کیسے حاصل کرسکتا ہے والدین کے بعد استاذ کا ہی حق تسلیم کیا گیا ہے۔ والدین نے ہمیں پال پوس کر بڑا کیا لیکن آدمی کی فکری و دینی تربیت میں بڑا حصہ اساتذہ کا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے حقوق کو کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ ہم ان کے سامنے ادب واحترام سے پیش آئیں۔ ان کے ساتھ ہمارا برتاؤ ہمیشہ تواضع و انکساری کے ساتھ ہو۔
اسلام کے علاوہ دنیا کا کوئی مذہب یا تمدن ایسا نہیں جس نے تمام انسانوں کی تعلیم کو ضروری قرار دیا ہو۔ یونان اور چین نے غیر معمولی علمی اور تمدنی ترقی کی لیکن وہ بھی تمام انسانوں کی تعلیم کے قائل نہ تھے بلکہ علم کو ایک خاص طبقہ میں محدود رکھنے کے قائل تھے۔ جس زمانہ میں انڈیا کا تمدن رو بکمال تھا اس میں علم کو برہمنوں میں محدود کر دیا گیا تھا۔ کسی شودر کو تحصیل علم کی اجازت نہ تھی۔ شودر کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیا جاتا تھا،تاکہ وہ علمی بات نہ سن سکے۔ یورپ کی تنگ نظری اور تعصب کا یہ عالم تھا کہ جو شخص علمی و تحقیقی کام کو سر انجام دیتا اس پرکفر و ارتداد کا فتویٰ لگا دیا جاتا تھا۔ مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بادشاہوں اور شہزادوں کے دماغ میں استاذ کے پاؤں دھونے کی خواہش انگڑائیاں لیتی رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ تعلیم کی مختلف جہتوں کا جائزہ لیں تو دنیا کی پہلی پانچ سو یونیورسٹیاں دوسرے ممالک میں ہیں اور دیگر ایجادات کے حوالے سے ہم پیچھے ہیں۔ کیوں؟ کیا ہمارے ہاں ذہین افراد پیدا نہیں ہوتے؟ کیا ہمارا تعلیمی نظام افراد کی تعلیمی و عملی صلاحیت نکھارنے میں ناکام رہا ہے؟ کیا ہمارے استاذ کے سامنے رول ماڈل کے طور پر مثالی استاذ کا نمونہ موجود ہے؟ وجہ صرف یہی ہے کہ ہم اخلاقیات‘ فرض شناسی‘ لگن اور اخلاص جیسے اسلامی اقدار سے دور ہیں۔ انسان فانی ہے‘ موت بر حق ہے اور مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا بھی اٹل حقیقت ہے۔ ہمارے دنیا کے چلے جانے کے بعد صرف تین اعمال ایسے ہیں جن کا ثواب ہمیں قیامت تک ملتا رہے گا ان میں سے ایک نفع بخش علم کسی کو دے کر چلے جانا۔ اللہ ہمیں اساتذہ کی قدر و منزلت سے آشنا ہونے کی توفیق بخشے امین۔
روشنی بانٹتا پھرتا ہے سُورج کی طرح
ڈوبتا ہے تو ستاروں کو جنم دیتا ہے
-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H