صحبت یافتہ علماء کرام اور غیر صحبت یافتہ علماء میں فرق:
علم کی دنیا ایک روشنی کی مانند ہے جو دلوں کو منور کرتی اور انسانوں کو حقیقت کے راستے پر گامزن کرتی ہے، مگر اس روشنی کی دو شکلیں ہیں: ایک وہ جو کتابوں کے صفحات میں بند ہوتی ہے، اور دوسری وہ جو صحبتِ اہل دل سے حاصل ہوتی ہے۔ کتابی علم اپنے مقام پر عظیم ضرور ہے، مگر جب یہ علم اہلِ تقویٰ اور صوفیائے کرام کی صحبت میں پروان چڑھتا ہے تو وہ ایک عام علم سے بڑھ کر حکمت اور نور کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کی دو اقسام پائی جاتی ہیں: ایک وہ جو صحبت یافتہ ہیں اور دوسری وہ جو صرف علم کا خزانہ رکھتے ہیں مگر دل کی دنیا سے محروم ہوتے ہیں۔
صحبت یافتہ علماء کا علم ایک ایسے میٹھے پھل دار درخت کی مانند ہے جو اپنی شاخوں پر لٹکے ہوئے پختہ پھلوں کے ذریعے لوگوں کی روح کو خوشبو اور خوشی عطا کرتا ہے۔ یہ پھل نہ صرف ظاہری طور پر دلکش ہوتا ہے بلکہ اس کا ذائقہ بھی دل کو لبھاتا ہے، اور اس کا ہر لقمہ روحانی تسکین بخشتا ہے۔ ان کا علم ایک ایسی روشنی ہے جو دلوں کی اندھیری کوٹھریوں میں امید اور ہدایت کا چراغ جلاتا ہے۔
دوسری طرف، غیر صحبت یافتہ علماء کا علم ہے، جو "کڑوے پھل دار درخت" کی مانند ہوتا ہے، یہ درخت بھی پھل دیتا ہے، مگر اس کے پھل کا ذائقہ کڑوا اور بے ذائقہ ہوتا ہے، جو لوگوں کی خواہشات کو پوری کرنے کی بجائے انہیں مایوس کرتا ہے۔ اگرچہ یہ پھل بھی دیکھنے میں اچھا لگتا ہے، مگر کھانے سے پتا چلتا ہے کہ یہ پھل بد مزہ ہے، اسی طرح ان کے پاس علم بظاہر موجود تو ہے، لیکن اس میں وہ خوشبو اور تاثیر نہیں جو دلوں کی تسکین کا سبب بن سکے۔
اسی لیے علم کو محض الفاظ اور اصولوں کا مجموعہ نہیں سمجھنا چاہیے! علم اس وقت حقیقی معنوں میں انسان کے لیے مفید ہوتا ہے جب وہ روحانیت اور اخلاقی تربیت کے ساتھ مل کر دلوں میں سرایت کرے۔ یہی وہ علم ہے جو انسان کو اللہ کے قریب کرتا اور اس کی زندگی کو ایک حقیقی مقصد عطا کرتا ہے۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ
"یک زمانہ صحبت با اولیاء۔
بہتر از صد سالہ طاعتِ ہے ریا"
چنانچہ حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اس شعر کی توجیہ کرتے ہوے حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ ایک شاعر نے جو کہا ہے کہ اہل اللہ کی صحبت سو سال کی اخلاص والی عبادت سے بہتر ہے یہ اس نے کم کہا ہے، بلکہ اللہ والوں کی صحبت ایک لاکھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ یہ ہے کہ اللہ والوں کی صحبت سے اللہ ملتا ہے اور کثرتِ عبادت سے ثواب ملتا ہے۔ اور اہل اللہ کی صحبت کے عبادت سے افضل ہونے کی دلیل بخاری شریف کی یہ حدیث ہے کہ :
“مَنْ اَحَبَّ عَبْدًا لَایُحِبُّہٗ إِلَّا لِلہِ ”کہ جو کسی سے صرف اللہ کے لیے محبت کرے تو اس کو اللہ تعالیٰ حلاوتِ ایمانی عطا فرمائیں گے اور حلاوتِ ایمانی جس کو نصیب ہو گی اس کا خاتمہ ایمان پر ہونے کی بشارت ہے۔ دیکھیے اس محبت للّٰہی پر کسی ثواب کا وعدہ نہیں فرمایا گیا بلکہ حلاوتِ ایمانی عطا فرمائی کہ ہم اسے مل جائیں گے۔
اسی طرح اور ایک مقام پر حضرت ارشاد فرماتے ہیں(العلم والعلماء ص۶۱) کہ "علم دین مقصود بالذات نہیں اس کے لیے عمل وخشیت لازم ہے*
ہماری حالت یہ ہے کہ علم حاصل کرتے ہیں پھر پڑھنے پڑھانے میں مشغول ہو جاتے ہیں ، اور اسی کو مقصود سمجھتے ہیں تحصیل خشیت کا اہتمام نہیں کرتے ، ایسا علم جو خشیت سے خالی ہو علم ہی نہیں ۔ صاحبو! علم کو میراث انبیاء کہا جاتا ہے تو اب دیکھ لو کہ انبیاء کی میراث کون سا علم ہے، کیا انبیاء کا علم بھی نعوذ باللہ ایسا ہی تھا جس میں محض مسائل و اصطلاحات کا تلفظ ہو اور خشیت کا نام نہ ہو، ہرگز نہیں ، وہاں تو یہ حالت تھی کہ جتنا علم بڑھتا تھا اتنی ہی خشیت بڑھتی تھی ۔ حدیث میں ہے کہ اَنَا اَعْلَمُكُمْ بِاللهِ وَاخْشَاكُمُ الله (میں تم سب سے زیادہ خدا کو جاننے والا اور تم سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہوں) تعلیم وتعلم کو مقصود بالذات سمجھ لینا حد سے تجاوز ہے۔ ( تجدید تعلیم وتبلیغ ص: ۱۶۰)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اہل دل کی صحبت اختیار کرنے اور اپنی راہ کی خاک چھانی نصیب فرمائیں۔
آمین یارب العالمین۔
خاک پاے اکابر:
ابو اشرف علی گڈاوی
https://chat.whatsapp.com/FJzf3IUx8dM4t003BnsTEA
-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H