((الدر المنظم فی بیان حکم مولد النبی الاعظم کے جدید نسخوں میں رضاخانی تحریفات))
تحریر :مولانا ساجد خان صاحب نقشبندی صاحب
قارئین کرام ! رضاخانیوں کی مثال اس چھلنی کی طرح ہے جس میں خود سینکڑوں سوراخ ہیں لیکن لوٹے کو سوراخ کاطعنہ دیتی ہے۔ آج سے کافی عرصہ پہلے رضاخانیوں نے یہ اعتراض اٹھایا کہ دیوبندی ناشرین نے کتب دیوبندیہ میں تحریف کی ہے۔ اور اس بنا پر اپنی عادت کے موافق پورے مسلک اہل السنۃ والجماعۃ کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا شروع کردیا ۔ ہم نے اس کے جواب میں کہا کہ یہ ناشرین کی بددیانتی ہے بھلا اس بنا پر پورے مسلک کو مطعون کرنا کونسا انصاف ہے؟ اور پھر جواب میں ہم نے قسط وار مضمون ’رضاخانی علما یہود کے نقش قدم پر‘‘ شروع کیا جس میں ان کی سینکڑوں ’’تحریفات ‘‘ کو محض ناشرین سے نہیں بلکہ ان کے مستند لوگوں سے ثابت کیا جس پر آج تک یہ دم دبائے اور منہ چھپائے پھر رہے ہیں ۔اور ایک لفظ آج تک اپنے گھر کی تحریفات پر ان کے قلم سے نہ نکلا ۔ اسی لئے ہم نے ’’دفاع اہل السنۃ والجماعۃ جلد سوم‘‘ کے ’’مقدمہ‘‘ میں اس امر کو واضح کیا کہ رضاخانیوں کا ہم سے اختلاف دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ ’’ذاتیات و تعصب ‘‘ کی بنا پر ہے۔ کیونکہ جو اعتراض یہ ہم پر کرتے ہیں جب وہی ان کے گھر سے نکل آتا ہے تو انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ اس دو رنگی کی تازہ مثال ملاحظہ ہو۔ شیخ عبد الحق الہ آبادی جنہیں خان صاحب نواب احمد رضاخان بریلوی نے اپنا بزرگ مانا اور دوسرے سفر حج میں زیادہ تر انہی کے ہاں قیام کیا ۔ میلاد پر ان کی ایک کتاب ہے ’’الدر المنظم فی بیان حکم مولد النبی الاعظم ‘‘ ہے ۔جو موضوع احادیث کمزور دلائل اور خارج عن المبحث امور سے پر ہے جس پر ان شاءاللہ کسی اور موقع پر تبصرہ کریں گے۔
اس کا ایک ایڈیشن بقول رضاخانی :
’’شیر ربانی حضرت میاں شیر محمد نقشبندی شرقپوری کے کتب خانہ میں موجود تھا حضرت میاں غلام اللہ ثانی لاثانی کے فرزند ارجمند حضرت الحاج صاحبزادہ میاں غلام احمد نقشبندی مجددی شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۴۱۲ میں شائع کیا‘‘۔
(الدر المنظم محرف شدہ ،ص۴ ،مطبوعہ بزم احیا مدینہ جامعہ مدینۃ العلم گوجرانوالہ فروری ۲۰۲۳)
ہمارے پیش نظر یہی نسخہ ہے ۔ مولف نے اس کتاب پر چند علما عصر کی تقریظات لی ہیں جو شرقپوری نسخے کے آخر میں ہے جس میں ایک تقریظ فقیہ العصر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد کی ہے جو ان الفاظ کے ساتھ ہے :
’’تقریظ جناب مولوی سید حمزہ صاحب شاگرد جناب مولانا مولوی رشید احمد صاحب محدث گنگوہی ادام اللہ فیضہ ‘‘۔
(الدر المنظم فی مولد النبی الاعظم، ص۱۴۷،بسعی پیر طریقت حضرت الحاج صاحبزادہ میاں غلام احمد نقشبندی مجددی زیب سجادہ آستانہ عالیہ شیر ربانی شرقپور )
اندازہ لگائیں کس قدر آداب و تعظیم کے ساتھ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب کا نام مع القابات و دعائیہ کلمات ذکر کیا چونکہ رضاخانی مذہب میں معاذاللہ نقل کفر۔رکف۔۔ر نہ باشد فقیہ العصر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب رحمہ اللہ ایسے کاپر ہیں کہ ان کے کوفر میں شک کرنے والابھی کاااافر ہے لہذا ان کیلئے دعائیہ کلمات ، مولانا و مولوی کے تعظیمی القابات بھی لگانا کووفرہے (الطاری الداری ، فتاوی رضویہ ، فتاوی تاج الشریعہ )
لہذا رضاخانیوں کے ’’مولانا مزمل حسین کیلانی‘‘ نے جب اس کتاب کا جدید ایڈیشن اپنی تخریج و تحقیق کے ساتھ شائع کیا تو ملاحظہ ہو کہ اس میں کس قدر بدترین تحریف کی :
’’تقریظ مولوی سید حمزہ صاحب شاگرد مولوی رشید احمد گنگوہی ‘‘
(الدر المنظم ،ص۱۳،مطبوعہ بزم احیا مدینہ جامعہ مدینۃ العلم گوجرانوالہ فروری ۲۰۲۳)
’’مولانا ، محدث ، ادام اللہ فیضہ ‘‘ کے الفاظ و جملوں کو تحریف کرکے حذف کردیا گیا۔ اور بے شرمی کی انتہا کہ یہی مولانا مزمل حسین رضاخانی اسی کتاب میں لکھتا ہے :
’’آخر میں لکھا گیا ہے تاکہ سرقہ کا وہم نہ رہے جو اہل علم کے نزدیک نہایت درجہ کا جرم ہے ‘‘۔
(الدر المنظم ،ص۷،مطبوعہ بزم احیا مدینہ جامعہ مدینۃ العلم گوجرانوالہ فروری ۲۰۲۳)
کیوں خائن و محرف صاحب ! سرقہ اگر اہل علم کے ہاں نہایت درجہ کا جرم ہے تو کیا کسی کتاب میں کھلی تحریف نہایت درجہ کا معاذاللہ ثواب ہے جو آپ اس کا ارتکاب اس قدر ڈھٹائی سے کررہے ہیں ؟
ایک اور تحریف ملاحظہ ہو شرقپوری ایڈیشن میں ایک اور تقریظ یوں ہے :
’’تقریظ جناب مولانا مولوی عبد اللہ صاحب دام فیضہ داماد حضرت مولانا مولوی محمد قاسم صاحب مرحوم ‘‘۔
(الدر المنظم فی مولد النبی الاعظم،ص۱۵۴،بسعی پیر طریقت حضرت الحاج صاحبزادہ میاں غلام احمد نقشبندی مجددی زیب سجادہ آستانہ عالیہ شیر ربانی شرقپور )
حجۃ الاسلام امام قاسم نانوتوی صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق بھی چونکہ رضاخانیوں کا فتوی وہی تھا لہذا رضاخانیوں نے اس عبارت میں یوں تحریف کردی:
’’تقریظ مولوی عبد اللہ داماد مولوی محمد قاسم ‘‘۔
(الدر المنظم ،ص۲۸،مطبوعہ بزم احیا مدینہ جامعہ مدینۃ العلم گوجرانوالہ فروری ۲۰۲۳)
’’جناب ، مولانا ، دام فیضہ ، حضرت ، مولانا ،صاحب ، مرحوم ‘‘ کے تعظیمی القابات و دعائیہ کلمات کو بدترین تحریف کا ارتکاب کرتے ہوئے حذف کردیا گیا ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔اسی تقریظ میں ایک عبارت یوں تھی :
’’کہف الفضلا مولانا مولوی محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ ‘‘۔
(الدر المنظم فی مولد النبی الاعظم،ص۱۵۵،بسعی پیر طریقت حضرت الحاج صاحبزادہ میاں غلام احمد نقشبندی مجددی زیب سجادہ آستانہ عالیہ شیر ربانی شرقپور )
مگر محرف رضاخانی نے اس میں یوں تحریف کردی :
’’کہف الفضلا مولانا مولوی محمد قاسم صاحب ‘‘۔
(الدر المنظم ،ص۲۹،مطبوعہ بزم احیا مدینہ جامعہ مدینۃ العلم گوجرانوالہ فروری ۲۰۲۳)
رحمۃ اللہ علیہ کا دعائیہ کلمات کو اس نے ایسے غائب کردیا جیسے خان صاحب بریلوی کے دل سے ’’ایمان ‘‘ غائب رہا۔ ایک اور تحریف ملاحظہ ہو ۔مولف کتاب نے امام الموحدین شاہ اسمعیل شہی۔۔د کو اپنی کتاب میں یوں یاد کیا :
’’و حضرت مولانا جناب مولوی اسمعیل صاحب رحمۃ اللہ علیہ در جواب استفتا ‘‘۔
(الدر المنظم فی مولد النبی الاعظم،ص۱۰۴،بسعی پیر طریقت حضرت الحاج صاحبزادہ میاں غلام احمد نقشبندی مجددی زیب سجادہ آستانہ عالیہ شیر ربانی شرقپور )
چونکہ شاہ صاحب بھی مجدد التکفیر نواب احمد رضاخان بریلوی کے ہاں معاذاللہ ۷۴ وجوہ سے کاف۔۔ر ہیں لہذا مزمل رضاخانی صاحب کی رگ تحریف پھڑکی اور انہوں نے یوں تحریف کردی:
’’و حضرت مولانا جناب مولوی اسمعیل صاحب در جواب استفتا ‘‘۔
(الدر المنظم ،ص۳۲۳،مطبوعہ بزم احیا مدینہ جامعہ مدینۃ العلم گوجرانوالہ فروری ۲۰۲۳)
رحمۃ اللہ علیہ کے دعائیہ کلمات کو موصوف نے حذف کردیا۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
اب دلچسپ بات یہ کہ اس کتاب کا ایک ترجمہ رضاخانی استاد العلماء منشا تابش قصوری نے بھی کیا ہے جس میں شرم و حیا کو بالائے تاک رکھ کر کیلانی صاحب سے بھی زیادہ بدترین تحریف کی ہے چنانچہ ان کی کتاب میں فقط اتنا ہے :
’’تقریظ سید حمزہ شاگرد رشید احمد گنگوہی ‘‘۔
(میلاد مصطفی بزبان مصطفی مترجم منشا تابش قصوری ،ص۳۶۱،اقرا پبلی کیشنز لاہور محمد محمود احمد حافظ قصوری ،سال اشاعت ۲۰۱۶)
’’تقریظ عبد اللہ داماد قاسم نانوتوی ‘‘۔
(میلاد مصطفی بزبان مصطفی مترجم منشا تابش قصوری ،ص۳۷۵،اقرا پبلی کیشنز لاہور محمد محمود احمد حافظ قصوری ،سال اشاعت ۲۰۱۶)
اس تفصیل کے بعد رضاخانی اس کا بھی جواب دیں کہ یہ سارے تعظیمی و دعائیہ کلمات لگا نے کے بعد شیخ عبد الحق الہ آبادی مسلمان رہے ؟اور خان صاحب بریلوی ان سے دوستانہ تعلق رکھ کر خود مسلمان رہے ؟اور اس کی کتاب چھاپنے والے اسے بزرگ ماننے والے رضاخانی مسلمان رہے ؟
نوٹ: آخر میں رضاخانیوں کو یہی کہوں گا کہ وہ کان کھول کر سن لیں مجھے فیس بک کے نومولود محققین و مصنفین کی تو خبر نہیں کہ وہ کیا لکھ رہے ہیں؟ ان کی کتب میرے شاگرد ہی پڑھتے ہیں اور وہی مناسب جواب دیتے ہیں، لیکن اپنے مسلک کے کسی بڑے آدمی کے نام پر کچھ بھی چھاپو تو یہ سوچ کر چھاپو کہ یہ سب کچھ اول تا آخر ساجد خان نقشبندی کی نظر سے ضرور گزرے گا۔ یہ الگ بات ہےکہ تم چھاپ کر اسے ’’ستر باادب سوالات‘‘ کی طرح حیض کی چھیتروں کی مانند چھپائے پھرو۔
-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H