Article Image

مولانا عبدالعلی فاروقی صاحب کے ساتھ دسترخوان پر!

مولانا عبدالعلی فاروقی صاحب کے ساتھ دسترخوان پر!
اظفر منصور

فاروقی خاندان کے چشم و چراغ، قاطع شیعیت مولانا عبدالعلیم فاروقی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے برادر چچا زاد، مدرسہ فاروقیہ کاکوری لکھنؤ کے مہتمم جناب مولانا عبدالعلی فاروقی صاحب سے 13 ستمبر کی شام منعقدہ ایک جلسہ سیرت النبی ﷺ میں شرکت کی نسبت سے ملاقات ہوئی، چہرے پر بھائی مولانا عبدالعلیم صاحب ؒ جیسا رعب تو نہیں تھا مگر علم کی آمیزش کے ساتھ نور کی کرنیں ضرور پھوٹ رہی تھیں، یہی وجہ ہے کہ ایک صاحب کو تصویر بھیج کر مجھے تحقیق کرنی پڑی کہ آیا یہی مولانا عبدالعلی صاحب ہیں یا کوئی اور۔ ملاقات سے قبل میں نے اپنے آپ کو ذہنی طور پر مکمل تیار کر لیا تھا، کہ اس خاندان نے کاکوری میں بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، تو اس تعلق سے بعض سوالات کرنے ہیں، مولانا چونکہ کافی ہنس مکھ اور آزاد مزاج واقع ہوئے تھے اس لیے زیادہ ہمتیں جٹانے کی ضرورت نہیں محسوس ہوئی، میں نے عشائیہ سے کچھ ہی منٹ قبل قدرے خفیف آواز میں اجازت کے بعد ایک سوال پوچھا
"مولانا موجودہ ملکی حالات سے ہم سب بخوبی واقف ہیں، مسلمان انتشار کا شکار ہیں، کوئی ملکی پیمانے پر سیاسی و سماجی رہنمائی کے لیے تیار نہیں ہے، قیادت خاموش ہے، تو ایسے دور میں قیادت اور پھر علماء ملت اسلامیہ کو کوئی واضح اور دو ٹوک پیغام کیوں نہیں دیتے؟ کیا خوف لاحق ہے کہ ہم سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؟"
سوال طویل تھا، مولانا نے سکون سے سنا اور جو جواب دیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ "دراصل آج مسلمانوں کے اندر سے عمل کا احساس رخصت ہو گیا، مسلمانوں نے خود کو یہ سمجھ لیا ہے کہ وہی امام بھی ہیں اور مقتدیٰ بھی، تسلیم کرنے کی صلاحیت ختم ہوگئی، اگر کہیں سے کوئی صدا لگائی جاتی ہے تو دو چار کے علاوہ کوئی تیار کھڑا نظر نہیں آتا وغیرہ وغیرہ۔
یعنی مولانا نے سارا زور اس پر صرف کر دیا کہ قیادت کیسے رہنمائی کرے، علماء کس کی رہنمائی کریں جبکہ کوئی سننے اور عمل کرنے کو تیار نہیں، دوران گفتگو میں نے کئی بار کوشش کی کہ پوچھیں آخر یہ نوبت ہی کیوں آئی کہ علماء کو یہ شکوہ کرنا پڑ رہا ہے لوگ ہماری سنتے نہیں ہیں؟ لیکن ادب اور مولانا کی مسلسل گفتگو نے مجبور کیا۔ پھر دسترخوان پر بالکل سناٹا چھایا رہا، تو میں نے کچھ بولنا مناسب نہیں سمجھا، دوران طعام آسمان نے اپنے دہانے کھول دئیے، ابر رحمت کو برس جانے کی اجازت ملی اور زور کا پانی گرنے لگا، تو ہم لوگ فوروہیلر سے جلسہ گاہ پہنچے، بیان سے تھوڑی دیر قبل موقع ملا تو جھٹ سے میں نے پوچھ لیا کہ مولانا آخر ہر دور میں تقریباً یہ ماحول رہا ہے کہ لوگ کشمکش کا شکار رہے ہیں مگر اہل دانش نے ہمت رکھ کر پورے ماحول کو سنبھالا بھی ہے، جبکہ آج تو سارا الزام عوام پر لگا کر اپنا دامن بچا لیا جاتا ہے، یہ کیسے مناسب ہے؟ سوالات تلخ تھے مگر مولانا نے جواب دینے کی مکمل کوشش کی، یہ الگ بات ہے تشفی نہیں ہو پائی۔
پھر عشاء بعد سیرت النبی ﷺ کا جلسہ شروع ہوا اور مولانا نے اپنی گفتگو کا آغاز میرے اسی سوال سے کر دیا۔
مجموعی اعتبار سے مولانا سے ملاقات اتفاقی تھی، مگر بہت اچھی اور یادگار ثابت ہوئی، مولانا دوران خطاب اشعار بھی کثرت سے سنا رہے تھے جس سے کہ مجلس کا لطف دوبالا ہو جا رہا تھا۔
واضح ہو کہ مولانا دامت برکاتہم نے اس جلسے میں اس موقع پر شرکت کی جبکہ ایک دن قبل ہی مولانا کے بھتیجے مولانا یاسر عبدالرحیم فاروقی صاحب کی والدہ اور چھوٹے بھائی مولانا عبدالولی فاروقی صاحب ؒ کی اہلیہ کا طویل علالت کے بعد انتقال ہوا تھا اور پھر دو ڈھائی گھنٹے کے بعد ہی بارہ بنکی میں کسی عزیز کا انتقال ہوا تھا، تو وہ جنازہ بھی یہیں لکھنؤ منگا لیا گیا، اسطرح ایک گھر میں ایک وقت میں دو جنازے کے غم کو سینے میں چھپائے اہل کاکوری سے اپنی دلی وابستگی کی خاطر پروگرام میں شریک ہو گئے۔
اللہ رب العزت ان کی عمر دراز کرے۔ آمین ثم آمین
15/09/2024 1:07 AM

-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H