دیہات میں نماز جمعہ سے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ


دیہات میں نماز جمعہ سےمتعلق چند غلط فہمیاں
باعثِ تحریر
فقہائے حنفیہ کے نزدیک دیہات اور چھوٹے گاؤں میں نماز جمعہ پڑھنا جائز نہیں ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ اس وقت ہماری آبادی باوجودیکہ حنفی ہیں اوریہاں کے لوگ حنفیت ہی کاالتزام کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بلا مبالغہ ہزاروں ایسی جگہیں ہیں جہاں فقہ حنفی کے مطابق نمازِ جمعہ پڑھنا جائز نہیں ہوتا لیکن حنفیت کے ساتھ وابستہ افراد نہ صرف اس کااہتمام کرتے ہیں بلکہ اپنی بات پر سختی کےساتھ کار بند بھی ہوتے ہیں۔اس سے امت کے اجتماعی گناہوں میں بےبہا اضافہ ہوجاتاہے، اس پس منظر میں یہ چند سطور لکھنےکاداعیہ پیدا ہوا۔
فقہائے احناف کا موقف اور اس کی بنیاد
فقہائے حنفیہ کے نزدیک نماز جمعہ صرف اسی جگہ پڑھی جاسکتی ہے جو شہر یا بڑا گاؤں ہو، چھوٹے گاؤں میں نماز جمعہ پڑھنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
عام طور پر سمجھایہ جاتاہے کہ حنفیہ کا یہ موقف کچھ زیادہ قوی یامدلل نہیں ہے، اس لئے بہت سے حنفیہ بھی اس کو معذرت خواہانہ انداز میں ذکر کرتے ہیں حالانکہ مجتہد کےدلائل کا جانچ پڑتال ایک مقلد کی شان سے اوپر کی چیز ہے، مگر اس کے باوجود فقہائےحنفیہ کے استدلالات کو دیکھا جائے تو واضح ہوجاتاہے کہ ان کا یہ موقف کمزور نہیں بلکہ مضبوط اور بہت مضبوط ہے، بعض اہم دلائل درج ذیل ہیں :
۱:نمازِ جمعہ کی فرضیت کاحکم مکہ مکرمہ میں نازل ہوا، آپﷺ کے حکم سے مدینہ منورہ میں جمعہ کااہتمام بھی کیاجاتارہا، اس کے باوجود آپﷺقباء تشریف لاتے ہیں اور وہاں کم از کم چودہ دن اقامت فرماتے ہیں مگر جمعہ کی نماز قائم نہیں فرماتے، اس دوران کم از کم دو مرتبہ نمازِ جمعہ کا وقت آیا مگر آپﷺ نے نہ خود اس کااہتمام فرمایا اور نہ ہی اہلِ قباء کو اس کاحکم دیا۔
۲:مدینہ منورہ تشریف آوری کے بعد سے لےکر آخر مدینہ منورہ کے ارد گرد دیہاتی علاقوں(عوالی مدینہ)میں جمعہ کااہتمام نہیں ہوا، بلکہ وہاں سے لوگ باری باری ایک ایک جمعہ کےلئے مسجد نبوی شریف حاضر ہوجایاکرتے تھے، اب اگر جمعہ ہر بستی اور دیہات میں ضروری ہے تو وہاں کے سارے لوگ جمعہ جیسا اہم فریضہ کیونکر چھوڑ سکتے ہیں؟ جبکہ وہ حضورﷺ کے قریب تر بھی تھے اور موقع بموقع حاضر بھی ہوتے تھے جس کے بعد غالب گمان یہی ہے کہ یہ سارا کچھ حضورﷺکے علم میں تھا۔
۳:حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی روایت بھی اس باب میں بالکل واضح ہے،
"مصنف"میں ہے:
- عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: «لَا جُمُعَةَ وَلَا تَشْرِيقَ إِلَّا فِي مِصْرٍ جَامِعٍ»
ترجمہ:"حضرت ابوعبدالرحمان سلمی رحمہ اللہ کے واسطےسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کاارشادگرامی منقول ہےکہ:نماز جمعہ،تکبیرات تشریق صرف بڑے شہرمیں پڑھنادرست ہے"۔
یہ روایت یوں تو حضرت علی کرّم اللہ وجہہ پر موقوف ہے لیکن چونکہ یہ بات اجتہادی نہیں ہے اس لئے ایسی موقوف روایت بھی مرفوع روایت کےساتھ ملحق ہوجاتی ہے۔
بے جا جمعہ پڑھنے کےمفاسد
جہاں جمعہ پڑھنا جائز نہیں ہوتا، اوراس کے باوجود کچھ لوگ جمعہ پڑھنے لگ جائیں،اس میں درج ذیل مفاسد پائےجاتےہیں:
۱:ظہر کی نماز فرض عین ہے ، یہ فرض ان تمام افراد کے ذمے باقی رہ جاتا ہے جو بے جا نمازِ جمعہ پڑھنےپراکتفاء کرتے ہیں۔
۲:نمازِ جمعہ کےعنوان سے وہ جو دو رکعت پڑھتے ہیں ،اس کی شرعی حیثیت توفرض نماز کی ہے نہیں، لامحالہ وہ نفل نماز ہی شمار ہوگی ، جبکہ نوافل کو جماعت کے ساتھ پڑھنا شرعاً مذموم وممنوع ہے۔
۳:جمعہ کے نام دینے کی وجہ سے ضرور جہر کےساتھ تلاوت کریں گے جبکہ دن کے نوافل میں جہر کے ساتھ تلاوت کرنا ممنوع ومکروہ
ہے۔
۴:نفل کے لیے تداعی،خطبہ دینا اوراذان دینادرست نہیں۔
5:مقلد کے لئے اپنے اس مذہب سے نکلنا جائز نہیں ہے جس کو حق کے زیادہ قریب سمجھ کر اختیار کررکھا ہو، اب جب کوئی شخص حنفیت کو اختیار کیا ہوا ہے تو وہ کیونکر اس مسئلہ میں یا کسی بھی مسئلہ میں بے ضابطہ مذہب کی تعلیمات سے نکل سکتاہے!
بےجا جمعہ پڑھنے کےبارےمیں پانچ بنیادی غلط فہمیاں
جو لوگ چھوٹےچھوٹے دیہات میں جمعہ کی نماز قائم کرتے ہیں،ان میں سے بعض لوگ تو ایسے ہیں جو دین کےاحکام وتعلیمات سے زیادہ واقف نہیں ہوتے، ان کو یہ مسئلہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ دیہات میں نمازِجمعہ نہیں ہوتا، اس لئے وہ دیگر علاقوں کی دیکھا دیکھی نماز جمعہ کا اہتمام شروع کرلیتے ہیں،ان لوگوں کےبارے میں تو مناسب اور معقول بات یہی ہے کہ ان کو اچھی طرح مسئلہ سمجھادیاجائے، اگر ضد اور تعصب جیسے عناصر نہ ہوں تو آسانی کےساتھ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ جو لوگ کچھ نہ کچھ دینی شعوررکھتے ہیں ، اور جانتے ہیں کہ دیہات میں جمعہ نہیں ہوتا ،مگر اس کے باوجود وہ خود پڑھتے ہیں یا اس کی حمایت کرتے ہیں،وہ عام طور پر کچھ غلط فہمیوں کی بنیاد پر ایسا کرتے ہیں، ذیل میں کچھ اہم غلط فہمیاں ذکر کی جاتی ہیں اور ساتھ کی اس غلطی بھی واضح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پہلی غلط فہمی:دیگر مذاہب میں تو جائز ہے
بہت سے لوگوں کو جب یہ بتایاجاتاہے کہ دیہات میں نماز جمعہ نہیں ہوتا، آپ نہ پڑھے تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ:" ٹھیک ہے کہ حنفیہ کے ہاں نہیں ہوتا، لیکن دیگر مذاہب میں تو ہوتا ہے ناں"۔ اس بنیاد پر کچھ لوگ نئی جگہ جمعہ شروع کرنے لگتے ہیں اور کچھ پہلےسے جاری جمعہ کو برقرار رکھتے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ استدلال ہی تام نہیں ہے، اس کے ساتھ کوئی دوسرا جملہ لگائیں گے تبھی جاکر یہ بات مکمل ہوجائے گی اور استدلال تام ہوجائے گا،جو لوگ ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں ان کے مناسب حال یہی جملہ یہاں محذوف نکال سکتے ہیں کہ "اور جو چیز دیگر مذاہب میں جائز ہو،اس کی گنجائش ہوتی ہے"۔اس کے بغیر استدلال پورا نہیں ہوتا اور اس جملہ کو ساتھ ملا لیں تو بہت بڑی خرابی لازم آجائےگی،وہ خرابی یہ ہے کہ :سینکڑوں ایسےمسائل ہیں جن میں حنفیہ اور دیگر مذاہب کے درمیان اختلاف ہوتاہے، اس ایک ضابطہ سے ان تمام مسائل میں گنجائش کا راستہ کھل جائے گا۔ تقلید شخصی کےا لتزام کی بنیاد ہی منہدم ہوجائےگی۔اس لئے اس بنیاد پر بےجا جمعہ پڑھنے کی اجازت دینا یااس کی حمایت کرنا سخت غلط او ر بہت خطرناک ہے۔
زیادہ سےزیادہ یہ کہاجاسکتا تھا کہ دیگر مذاہب کی رعایت رکھنا مطلوب ومستحسن ہے، لیکن زیر بحث مسئلہ میں اس کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے ،کیونکہ اس مستحسن پر عمل کرنے سے اپنے مذہب کے مطابق متعدد ناجائز امور کاارتکاب کرنا لازم آجاتاہے جس کی تفصیل "بےجا جمعہ پڑھنے کے مفاسد"کے تحت ذکر کئے گئے ہیں۔
دوسری غلط فہمی:جہاں شروع ہو، وہاں رہنےدیاجائے
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دیہات میں نماز جمعہ شروع کرنا تودرست نہیں ہے لیکن اگر کہیں پہلےسےجمعہ شروع ہو تو اس کوختم کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ درست ہی نہیں ہے،وہاں شرعی حکم یہی ہے کہ جمعہ پڑھاجائے۔
یہ بھی بالکل غلط ہے، اس کی فقہی تکییف کےطور پر یہی کہاجاسکتا ہے کہ جمعہ پڑھنا کوئی "امرِ آنی" (وقتی کام)تو ہے نہیں جوایک ہی مرتبہ کرنےسےتمام ہوجاتا ہو، بلکہ ہر یومِ جمعہ کو الگ سے اس کا اہتمام کرنا پڑھتا ہے، اب جب ایک جگہ میں نمازِ جمعہ درست نہ ہو تو ظاہر ہے کہ وہاں ظہر کی نماز پڑھنا فرض عین ہے،ایسی جگہ نماز ظہر کی بجائے جمعہ پڑھنے میں متعدد شرعی مفاسد ہیں جن کی تفصیل اوپر درج کی گئی ہے، اب محض پہلے سے جاری ہونے کی وجہ سے اگر اس کی اجازت دی جاتی ہے تو اس کاحاصل یہی ہوگا کہ شرعی مفاسد اور گناہوں کی اجازت دی گئی ، جس کا غلط ہونا اس قدر واضح ہے جس کو بیان کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
مفاسد کےخوف سے جمعہ جاری رکھنا
اسی بات کو بسااوقات ایک دوسرے رنگ میں بھی پیش کیاجاتاہے،وہ یہ ہے کہ ایسی جگہ جمعہ چھوڑنے کی وجہ سے جنگ وجھگڑے کا اندیشہ ہے،اس لئے اس سے بچنے کےلئے نمازِ جمعہ پڑھنا ہی مناسب ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ :
الف: ایسا ہر جگہ اور ہر وقت نہیں ہوتا، غلطی یہ ہے کہ ایک آدھ جگہ ایسا ہوجاتاہے اورا س سے پورا ضابطہ نکال کر ہر جگہ جاری کردیاجاتاہے۔
ب:یہ لوگوں کی دینی تربیت نہ کرنےکانتیجہ ہے، لہٰذا کرنےکاکام یہ نہیں ہے کہ ان کی ان نفسیات کو بڑھانےکا ذریعہ بناجائے بلکہ اصل کام یہ ہے کہ ان کی دینی تربیت پر توجہ دی جائے تاکہ وہ شرعی حکم کے سامنے اپنے جذبات، جاہ ومال کے نفسیات کو قربان کرنے پرآمادہ ہوجائیں۔
ج:اگر اس طرح بات بات میں لوگوں کے اس قسم کے جذبات کی رعایت رکھی جائے تو بہت سے دینی احکام اور مسلّم تعلیمات سے ہاتھ دھونا پڑےگا۔
د: اس باب میں مناسب بات وہی ہے جو حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ نے تحریر فرمائی ہے، وہ اس نوعیت کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
ج…جو صورت جناب نے تحریر فرمائی ہے حنفی مذہب کے مطابق اس میں جمعہ جائز نہیں، “مصر جامع” کی تعریف میں حضرات فقہاء کے الفاظ مختلف ضرور ہیں، لیکن کوئی تعریف میری نظر سے ایسی نہیں گزری جس کی رُو سے بیس مکانات کی بستی میں “مصر جامع” کے لقب سے سرفراز ہوسکے۔
رہا یہ کہ لوگوں کے فتنہ و فساد میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے یہ کوئی عذر نہیں، کیا شریعت کو لوگوں کی خواہشات کے تابع کیا جائے گا؟ کہ اگر مسئلہ ان کی خواہش کے مطابق ہے تو ٹھیک ورنہ وہ اسلام ہی کو جواب دے جائیں گے؟ ہاں! ان مولوی صاحب سے برگشتہ ہونا ضروری ہے لیکن اگر مولوی صاحب بھی یہ اعلان کردیں کہ مجھ سے حماقت ہوئی کہ میں نے محض خود رائی سے جمعہ شروع کرادیا تو اُمید ہے کہ لوگ ان کو بھی معاف کر دیں گے، اور اگر شرعی مسئلہ کے علی الرغم لوگ جمعہ پڑھتے رہے تو سب کے ذمہ ظہر کی نماز باقی رہے گی، جس کا وبال نہ صرف جمعہ پڑھنے والوں کی گردن پر ہوگا، بلکہ سب کی نمازہی غارت ہونے کا وبال جمعہ پڑھانے والے مولوی صاحب پر بھی ہوگا۔ اوّل تو شاہ صاحب کا مطلب آپ سمجھے نہیں، علاوہ ازیں شاہ صاحب کسی فقہی مذہب کے امام نہیں کہ ان کی تقلید کی جائے ۔
زیر بحث موضوع سے متعلق ایک دوسرے سوال کے جواب میں وہ تحریر فرماتے ہیں:
"یہ جو کہا جاتا ہے کہ جہاں جمعہ شروع ہو وہاں بند نہ کیا جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ مسئلہ سمجھادیا جائے، اس کے باوجود کوئی نہیں مانتا تو وہ اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے، مگر خود جمعہ پڑھنا کسی حال میں دُرست نہیں۔ اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ اس سے انتشار ہوگا، یہ ایک درجے میں صحیح ہے، کہ لوگوں پر جہل غالب ہے، مگر یہ بھی اس امر کے لئے کافی عذر نہیں کہ اس بدعت کا خود ارتکاب کیا جائے۔ راقم الحروف اپنے گاوٴں میں طالبِ علمی کے زمانے میں خود جمعہ پڑھاتا تھا، لیکن جب مسئلے کا علم ہوا تو جمعہ بند کردینے کا اعلان کردیا، الحمدللہ! نہ کوئی مرتد ہوا، نہ کسی نے نماز چھوڑی، البتہ ایسے بے دین لوگ جن کو نماز اور مسجد سے کوئی واسطہ نہیں، اب بھی نکتہ چینی کرتے ہیں، سو ایسے لوگوں کی نکتہ چینیوں سے گھبراکر شرعی مسائل کو اگر بدل دیا جائے تو دینِ اسلام کی شکل ہی مسخ ہوجائے گی۔"
تیسری غلط فہمی: آبادی کےمخصوص افراد پرمدارِ حکم رکھنا
علم وتدریس اور فتوی کے کام سے وابستہ حضرات کے حلقہ میں ایک غلطی یہ کی جاتی ہے کہ مخصوص تعداد پر حکم کا مدار رکھتے ہیں (اور
عموما دیکھنے میں یہ آتاہے کہ یہ تعداد بھی رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے)، کہیں چار ہزار افراد کو معیار ٹھہرایاجاتاہے، کہیں تین ہزار ،کہیں دوہزار جبکہ بعض حضرات اس سے بھی کم تعداد کو بنیاد بنا کر جمعہ جائز قرار دیتے ہیں۔
اس کے غلط فہمی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اصل مدار لوگوں کی تعداد پر نہیں ہے تاکہ ہرہرشخص کی مردم شماری کرکے حکم متعین کیاجائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہاں ضروریات زندگی فراہم ہوتے ہوں، کیونکہ اصل مدار"مصر" ہونےپر ہے اور کسی جگہ کے "مصر" ہونے میں صرف وہاں کےلوگوں کا کم زیادہ ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ متعدد دکانوں ا ورمساجد کا ہونا اور عام ضروریات ِ
زندگی کا مہیا ہونا بھی ضروری ہے۔
چوتھی غلط فہمی:قرب وجوار شہروں کے ساتھ مسافت کالحاظ رکھنا
بہت سے دیہاتوں میں اس بنیاد پر بھی جمعہ کی نماز پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے کہ وہ کسی بڑے گاؤں،قصبہ یا شہر کے ساتھ قریب ہے، اس ناکارہ راقم الحروف کو بھی ایسےحضرات سے واسطہ پیش آیا ہے ،چنانچہ ایک جگہ بہت محدود آبادی تھی، دکان بھی کوئی نہیں تھا، لیکن اس کے قرب میں ایک دوسرا گاؤں تھا جو بہت بڑا تھا اور فقہی نقطہ نظر سے وہاں جمعہ بلا شبہ درست تھا، تو بعض لوگ اس قرب واتصال کی وجہ سے اس چھوٹے سے دیہات میں بھی جمعہ کی اجازت دے رہے تھے۔
یہ بھی بالکل غلط ہے، جب کوئی جگہ مستقل دیہات کی حیثیت رکھتی ہے اور وہاں شرائط کے مطابق جمعہ درست نہ ہو، تو محض کسی جگہ کےساتھ قریب ہونے کی بنیاد پر بھی وہاں جمعہ کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
"میرہ"کی فقہی حیثیت
ہمارےیہاں صوبہ سرحد(خیبر پختون خواہ) کے بہت سےعلاقوں میں ہوتا یہ ہے کہ ایک جگہ بڑا قصبہ آباد ہوتا ہے، اس سے باہر ایک دوسری جگہ ہو تی ہے جو پہلےجگہ کا "میرہ" کہلاتی ہے، کہاجاتاہے کہ انگریز کے زمانے میں جب زمینوں کی پیمائش وغیرہ کاکام ہورہا تھا تو جس جگہ آبادی ہوتی ،وہاں کانام جوں کا توں برقرار کھاجاتاتھا، آبادی سے باہر جو جگہ صحرا، بیاباں یا جنگل نما ہوتی تواگر اہلِ علاقہ کے ہاں اس جگہ کے لئے کوئی نام مشہور ہوتاتھا تو اسی نام سے اس جگہ کااندراج ہوتا، ورنہ اس کو قریب گاؤں /قصبہ کا"میرہ" قراردیاجاتاتھااوراس عنوان سے اس کااندراج ہوتاتھا۔
بہرحال ،حقیقت ِحال خواہ کچھ بھی ہو، لیکن ہمارے ہاں بڑے گاؤں سے باہر کچھ علاقے اس گاؤں کا "میرہ" کہلاتے ہیں، کچھ زمانے پہلے تک وہ بالکل غیر آباد تھے لیکن اب کچھ عرصےسے اس میں آبادی بڑھ رہی ہے،اب غلطی یہ کی جاتی ہے کہ جب کوئی جگہ دوسرے بڑے گاؤں کا "میرہ" کہلائے تو کچھ لوگ وہاں جمعہ پڑھنے کو جائز کہتے ہیں حالانکہ بہت سی مرتبہ وہ میرہ متعلقہ گاؤں کا حصہ شمار نہیں ہوتا۔
مثال کےطور پر ہمارے ضلع مردان کا مشہور علاقہ "طورو"ہے،اس کے حدود سے باہر وسیع اراضی تھے جن کو"طورومیرہ"کہاجاتاتھا، اب کچھ عرصے سے وہاں متعددگاؤں آباد ہوچکےتھے، اب کہنےکو تو ان میں سےہر ہرگاؤں"طورومیرہ" شمار ہوتاہے اور "طورو"بذات خود بہت بڑا قصبہ ہے جہاں بلا شبہ نمازِ جمعہ فرض ہے، لیکن ان گاؤوں کی حیثیت "طورو" کے ایک حصہ اور ایک محلے کی نہیں ہے بلکہ عام لوگ ان کو مستقل مستقل گاؤں ہی شمار کرتے اور سمجھتے ہیں ، لہٰذا جب ایسے گاؤں میں بذات خود جمعہ کی شرائط موجود نہ ہوں تو محض کسی بڑے قصبے کی طرف نسبت کرنے کی وجہ سے وہاں جمعہ کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
کیا" میرہ" فنائےمصر ہے؟
یاد رہے کہ ان علاقوں کو فقہی اصطلاح میں"فنائےمصر"قرار دینا بالکل درست نہیں ہے، کیونکہ کسی شہر کا"فناء"وہ جگہ کہلاتی ہے جہاں کے ساتھ اس شہر کی کچھ ضروریات متعلق ہوں کہ وہاں شہر کا قبرستان، جانور چرانے یا لکڑی کاٹنے کی جگہ، گھوڑ سواری کا میدان،عیدگاہ وغیرہ ہو، جبکہ پشتوزبان میں جن علاقوں کو "میرہ"کہاجاتاہے،وہاں عموماً متعلقہ شہر کی ضروریات ان کےساتھ متعلق نہیں ہوتیں۔
اس کی قدیم تر مثال شاید"عوالی مدینہ" کی ہے،کہ یوں تو وہ مدینہ منورہ کےپڑوس میں آباد تھےاور خود مدینہ منورہ ہی کی جانب ان کی نسبت کی جاتی تھی لیکن اصطلاحی معنی میں وہ مدینہ منورہ کے "فناء" نہیں تھے ، اس لئے وہاں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی تھی۔
علامہ عبد الحی لکھنوی تحریر فرماتے ہیں:
قوله: من أهل العالية، هي القرى المجتمعة حول المدينة النبوية إلى جهة القبلة على ميل أو ميلين فأكثر من المسجد النبوي، وقال القاضي عياض: العوالي من المدينة على أربعة أميال، وقيل: ثلاثة، وهذا حد أدناها، وأعلاها ثمانية أميال. انتهى. ويرده أنه قال في منازل بني الحارث الخزرج: إنها بعوالي المدينة، بينه وبين منزل النبي صلى الله عليه وسلم ميل، وذكره ابن حزم أيضا والصحيح عن أدنى العوالي من المدينة على ميل أو ميلين، وأقصاها عمارة على ثلاثة أو أربعة أميال، وأقصاها مطلقا ثمانية أميال كما بسطه الشيخ نور الدين علي السمهودي مؤرخ المدينة في "وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى".
ترجمہ:"اہل عالیہ ان دیہات کا مجموعہ جومدینہ طیبہ میں مسجد نبوی کی طرفِ قبلہ میں میل دومیل یااس سے زیادہ کے فاصلے پرتھے۔قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ :عوالی مدینہ طیبہ سے چارمیل دورتھے،بعض کے نزدیک تین میل دورتھے۔مگرتین میل والی روایت قریبی علاقوں کے بارے میں ہے جب کہ دورآبادی آٹھ میل تک تھی۔اس پریہ اعتراض ہوتاہےکہ انہوں نے فرمایاہےکہ خزرج قبیلہ بنوحارث کے آبادی میں آباد تھا اوروہ عوالی مدینہ میں تھے اورآپﷺ اوراس کے درمیان ایک میل یادومیل فاصلہ تھا ۔مگردرست بات یہی ہے کہ عوالی میں سے زیادہ قریب ایک یادومیل کے فاصلے پرجب کہ اوران کی سب سے دورآبادی تین یاچارمیل کے فاصلے پرتھی ،جب کہ مطلقا سب سے دورآخری آبادی آٹھ میل کے فاصلے پرتھی جیساکہ علامہ سہمودی نے وفاء الوفاء میں نقل کیاہے"۔
پانچویں غلط فہمی: بعض فقہی جزئیات
متعدد اہل علم بعض فقہی جزئیات کی بنیاد پر بھی دیہات میں نمازِ جمعہ پڑھنےکی اجازت دیتے ہیں، وہ جزئیہ "بحر"کی درج ذیل عبارت میں درج ہے:
قال في التجنيس :سئل شمس الأئمة الحلواني أن كسالى العوام يصلون الفجر عند طلوع الشمس أفنزجرهم عن ذلك قال لا؛ لأنهم إذا منعوا عن ذلك تركوها أصلا وأداؤها مع تجويز أهل الحديث لها أولى من تركها أصلا اهـ.
ترجمہ:"تجنیس میں ہے کہ: امام حلوانی ؒ سے پوچھاگیاکہ سست لوگ فجر کی نماز سورج طلوع ہونے کے وقت پڑھتے ہیں، کیاہم اسے ڈانٹ سکتے ہیں؟توانہوں نے فرمایاکہ: نہیں!کیونکہ اگرانہیں ڈانٹاجائے تووہ سرے سے نمازہی چھوڑدیں گے،اورمحدثین کے نزدیک جس وقت نماز پڑھنادرست ہواس وقت نماز پڑھنا نہ پڑھنے سے بہترہے"۔
لیکن محض اس جزئیہ کی بنیاد پر خلافِ مذہب نمازِ جمعہ پڑھنے پڑھانے کی اجازت دینا سخت قابل اشکال ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ جزئیہ اپنے عموم پر نہیں ہے،ہر اجتہادی مسئلہ میں اگر ہر عامی کےتجاوز کرنےپر نکیر کرنا اگر ممنوع یا ناپسندیدہ ٹھہرجائے تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا دروازہ ہی بند ہوجائےگا، کیونکہ عملی زندگی کے بیشتر مسائل ایسے ہیں جن میں اختلاف پایاجاتاہے یا کم ازکم اس کاامکان واحتمال رہتاہے۔ اس لئے اس جزئیہ کا مناسب محمل یہ ہے کہ اس کو ایسی صورت پرحمل کرلیاجائے جہاں کسی عامی شخص کی دینی و اخلاقی کیفیت ایسی ہو کہ اگر صحیح حکم اس کو بتایاجائے تو نہ صرف یہ کہ قبول نہیں کرےگا بلکہ الٹا ضد اور ہٹ دھرمی وغیرہ کی وجہ سے اصل اور ضروری عبادت ہی چھوڑ بیٹھےگا، ایسی صورت حال میں جمہور اہل علم کے نزدیک اس کو اصل حکم بتانا ضروری نہیں ہے بلکہ جب اندیشہ ہے کہ وہ اس کی وجہ سےا تفاقی حکم پر بھی عمل کرنا چھوڑ بیٹھے گا تو شاید خاموش رہنا ہی زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہے۔
لہٰذا محض ان جیسی جزئیات کی بنیاد پر خلافِ مذہب نمازِ جمعہ کی اجازت یا ترغیب کسی طرح درست نہیں ہے، ورنہ تو اس جزئیہ کی وجہ سے گنجائش واجازت کاسلسلہ صرف جمعہ تک ہی محدود نہیں رہےگا بلکہ دیگر تمام اجتہادی مسائل بھی اس کی ضد میں آجائیں گے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ بندہ عبید الرحمن عفی عنہ ۔ دارالافتاء والارشاد،مردان۔۳ربیع الاول۴۶ھ

-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H