ماہ ربیع الاول کی آمد اور اہمیت
(تحریر عبدالجبار سلہری )
بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہمارے لیے نعمتِ عظمی ہے اور آپ کی وفات ہمارے لیے سعادت کی سب سے بڑی محرومی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ربیع الاول کے مہینہ میں ولادت ہونا۔ اہل عقل کے لیے نشانی جو لفظ ربیع کے معنٰی و مفہوم پر غور کرے۔ کیوں کہ لفظ ربیع (موسم بہار) میں اشتقاقی طور پر ایک اچھا اور نیک شگون پایاجاتا ہے۔ اس میں نیک تعبیر یہ ہے کہ آپ کی امت کو آپ کی خوشخبری سنائی گئی۔ ہر نیک فالی کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہوتی ہے۔ جس کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا! ابو عبد الرحمان صقلی بیان کرتے ہیں کہ ہر شخص کے لیے اس کے نام میں اس کا ایک حصہ رکھ دیا گیا ہے یعنی اس کے نام کے اثرات اس کی شخصیت پر مرتب ہوتے ہیں۔
ساڑھے چودہ سو سال قبل جب انسانیت ظلمت و کفر،شرک و بدعت میں ڈھوب چکی تھی۔ بیت اللہ شریف تین سو ساٹھ بتوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ عصمت دری، صنفِ نازک کی فروشی ،شراب نوشی وطیرہ،قمار بازی کاروبار،قتل و غارت عادت،ںچیوں کو زندہ درگور کرنا،ظلم و ستم ہر سو پھیل چکا تھا۔ اللہ جل جلالہ کی رحمت واسعہ قدرت کاملہ یک لخت جنبش میں آتی ہے اور اس عرب کے معاشرے کی تہذیب و تمدن، اخلاق و اطوار کی اصلاح کے لیے خاتم الرسل حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا میں بھیجنے کا ارادہ فرماتے ہیں۔ تاکہ دنیا میں چہار سو بہار ہی بہار چھا جائے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ موسم ربیع تمام موسموں میں انتہائی معتدل اور حسین ہوتا ہے۔ اور اسی طرح رسولِ معظم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت تمام شریعتوں میں انتہائی معتدل اور عین فطرت سلیمہ کے مطابق آسان ترین ہے۔
جب اللہ کی مشئیت ہوئی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجودِ مسعود سے زمان و مکان کو شرف بخشا جائے۔ بلکہ وہ زمان و مکان جس میں براهِ راست آپ ﷺ کی آمد ہو اس کو فضیلتِ عظمیٰ اور دیگر زمان و مکان پر نمایاں ترین مقام و مرتبہ حاصل ہو جائے۔ سوائے ان مہینوں کے جن کی فضیلت پہلے سے چلی آ رہی ہے اس لیے ان سے استثناء کیا گیا کہ ان میں اعمال کی کثرت کی جائے ۔ اگر آپ کو ان مہینوں یا اس اوقات میں بھیج دیا جاتا۔ جن کی فضیلت وارد ہوئی ہے تو وہ بظاہر اس شک میں ڈال دیتے کہ آپ کو ان کی وجہ سے فضیلت حاصل ہوئی ہے۔
سیرت حلبیہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم رحمِ مادر میں تشریف لائے تو اس کی علامات یہ تھیں کہ اس رات قریش کا ہر جانور بول اٹھا اور یوں گویا ہوا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحم مادر میں جلوہ گر ہو گئے ہیں اور رب کعبہ کی قسم! وہ دنیا کے لیے امان اور اہلِ دنیا کے لیے چراغِ ہدایت ہیں۔ اس رات قریش کے ہر نجومی اور عاملِ جنات اور عرب کے ہر قبیلے ان کے مؤکل کی ملاقات سے روک دیا گیا۔ ان کے سینوں سے علمِ کہانت چھین لیا گیا۔ دنیا کے ہر بادشاہ کا تخت اوندھا ہو گیا۔ تمام بادشاہوں کے لبوں پر مہرِ سکوت ثبت کر دی گئی اور وہ پورا دن بات نہ کر سکے۔ مشرق و مغرب کے جانور ایک دوسرے کے پاس جا کر اور سمندر کی مچھلیاں ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہی تھیں۔ پھر ہر مہینے آسمان اور زمین میں ندا کی جاتی رہی! مبارک ہو۔ جب ابو القاسم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم برکت و رحمت کے روپ میں ارض دنیا کی طرف مبعوث ہوں گے۔
حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے کسی شے کے گرنے کی ایک زوردار آواز سنی جس سے میں ڈر گئی۔ یہ پیر کا دن تھا پھر میں نے دیکھا کہ جیسے کچھ پرندے ہیں جو میرے دل پر اپنے پَر مل رہے ہیں جس سے مجھ پر (چھایا) سارا رعب و خوف جاتا رہا اور درد جو پہلے محسوس ہو رہا تھا وہ بھی ختم ہو گیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ میرے پاس ایک سفید سا شربت پڑا تھا میں اسے دودھ سمجھی۔ میں چونکہ بہت پیاس محسوس کر رہی تھی میں نے اسے اٹھا کر پی لیا تو مجھ سے ایک بلند تر نور جلوہ گر ہوا۔
آپ فرماتی ہیں: پھر میں نے دیکھا کہ پرندوں کا ایک غول آیا۔ میں نہیں جانتی وہ کدھر سے آیا۔ بہرحال انہوں نے میرے حجرے کو بھر دیا۔ ان کی چونچیں زمرد کی اور پَر یاقوت کے تھے۔ پھر میری نگاہ سے حجابات اٹھا دیے گئے اور میں نے دیکھا کہ تین جھنڈے دنیا پر لگے ہوئے ہیں: ایک مشرق و مغرب میں اور ایک کعبہ کی چھت پر۔
آپ فرماتی ہیں: جب محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم میرے بطن سے جلوہ گر ہوئے تو میں نے پہلو بدل کر انہیں دیکھا کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم سجدے میں پڑے ہوئے ہیں اور نہایت عاجزی اور انکساری سے دعا کرنے والے کی طرح آسمان کی طرف انگلی اٹھائے ہوئے ہیں۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے آسمان سے ایک سفید بادل اترا اور اس نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا احاطہ کر لیا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم میری نگاہ سے اوجھل ہو گئے تو میں نے سنا کوئی پکارنے والا کہہ رہا تھا: محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو زمین کے مشرق و مغرب میں پھراو۔ انہیں تمام سمندروں میں لے جاؤ تاکہ تمام اہلِ جہاں ان کے نام، صفات اور حلیہ مبارک سے واقف ہو جائیں اور جان لیں کہ یہی وہ ہستی ہیں جن کا نام دنیا میں ماحی رکھا گیا ہے۔ کیوں کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں تمام دنیا سے شرک مٹا دیا جائے گا۔ پھر کچھ ہی دیر بعد وہ بادل چھٹ گیا تو آپ اُون کے ایک سفید کپڑے میں، جو دودھ سے بھی سفید تر تھا، لپٹے ہوئے پڑے تھے۔ آپ کے نیچے سبز ریشم تھا اور آپ نے ہاتھ میں تروتازہ اور سفید موتی سے بنی ہوئی تین چابیاں پکڑ رکھی تھیں اور کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح و نصرت پائی اور نبوت کی چابیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا، شرک و بدعت، ظلم و جبر، کو مٹانے والا ماحی نام رکھا گیا ہے۔ حضور کے آنے سے بہار آئی ہے اس میں کوئی شک والی بات نہیں۔ چاہیے تو یہ تھا آپ کی سنتوں پر عمل پیرا ہو کر دنیا کو بہار سے بھر دیتے لیکن ہمارا طرز عمل کیا ہے ؟ آپ رحمت بن کر آئے نا کہ زحمت بن کر العیاذ باللہ مگر جن کاموں سے آپ نے منع فرمایا آج ہم اس مبارک باسعادت دن ہر وہی کام کرتے ہیں۔ اس مہینے کا پیغام یہ ہے کہ ہم لوگوں کو تکلیف نا پہنچائیں۔ وہ خرافات جن کو آپ مٹا کر گئے تھے پھر ان کو اپنا رہے ہیں۔ اس مبارک دن ہم جلسے جلوس نکال کر بیماروں کو تکلیف ہی نہیں دیتے بلکہ بعض دفعہ ان کی موت کا سبب بھی بنتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج علماء بہت پریشان بھی ہیں۔ آپ نے فرمایا نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اس دن خوشی میں ساری نمازیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ آپ نے فرمایا مجھے سب سے زیادہ بازار برے لگتے ہیں ہم بازاروں کو سجھا رہے ہیں۔ آپ نے ڈھول میوزک سے منع فرمایا اس دن خوشی میں مقابلے ہوتے ہیں بلکہ اس پر ظلم یہ کہ اول پوزیشن والے کو انعام دیا جاتا ہے۔ کیا یہ سب آپ کی سنت تھا اگر نہیں تو پھر ہمیں سنت کی طرف لوٹنا ہو گا جس کے لیے آپ کو بھیجا گیا یہ سب ختم کرکے دنیا کو بہار سے بھرنا ہو گا۔ اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق بخشے۔ آمین
-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H