غير مسلموں سے ملنے كا طريقہ

بسم اللّه الرحمن الرحيم

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى، آكسفورڈ

سوال:
مسقط ميں مقيم مولانا شفيع الرحمن ندوى صاحب نے سوال كيا ہے:
بھارت ماتا کی بحث کے ضمن میں میرے ذہن میں بھی ایک سوال ابھرا، ہم اپنے ملک میں ہندؤوں سے جب ملیں تو ان سے الیک سلیک کے الفاظ کیا ہونے چاہئیں، سلام تو منع ہے۔ کیا نمستے، نمسکار یا پرنام کہہ کر استقبال کیا جاسکتا ہے؟ اور آپ ﷺ غیر مسلمین یا مشرکین کا کن الفاظ میں استقبال کرتے تھے؟۔
ڈاکٹر اکرم حفظہ اللہ سے اس سوال کا جواب مطلوب ہے، بہت لوگوں سے یہ سوال کیا لیکن کوئی تشفی بخش جواب نہیں ملا۔

جواب:
اس مسئل ميں كنفيوژن كى وجہ غير مسلموں كے ساتھ تعامل كى صحيح نوعيت كا نہ سمجهنا ہے، اس غلط فہمى كا نتيجہ يہ ہوا كہ كچھ لوگوں نے تمام غير مسلموں كو سلام كرنا يا سلام كا جواب دينا ممنوع قرارديديا، كچھ لوگوں نے جواب كى اجازت دى، البتہ سلام كى ابتدا كرنے كى ممانعت كى، جبكہ ايك جماعت نے ان كے ساتھ ميل ملاپ كى مطلقا اجازت ديدى، ہم ذيل ميں اس مسئلہ كى تفصيل بيان كريں گے تاكہ بات اچهى طرح واضح ہو جائے۔
غير مسلموں كى دو قسميں ہيں:
پہلى قسم ان غير مسلموں كى ہے جو مسلمانوں سے بر سر پيكار ہوں، اس ميں وه غير مسلم بهى شامل ہيں جنہوں نے مسلمانوں سے جارى اپنا معاہده توڑ ديا ہے، اور وه غير مسلم بهى ہيں جنہيں وارننگ دى جا رہى ہو، ان لوگوں سے جب ملاقات ہو يا خط وكتابت ہو تو السلام عليكم نہ كہے، اور نہ كوئى ايسا لفظ استعمال كرے جس سے امن وامان يا معاہده كا مفہوم مترشح ہوتا ہے، يہى وه لوگ ہيں جن كے متعلق سورة الممتحنه آيت 9 ميں وارد ہے: " إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ"۔
كچھ لوگوں نے غير مسلموں سے سلام كى مطلق ممانعت كے لئے صحيح مسلم كى اس حديث سے استدلال كيا ہے جو سهيل بن ابي صالح عن أبيه عن أبي هريره كے واسطہ سے منقول ہے: "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا تبدءوا اليهود ولا النصارى بالسلام فإذا لقيتم أحدهم في طريق فاضطروه إلى أضيقه"، ليكن اس حديث سے استدلال صحيح نہيں، اولاً اس لئے كہ يہ حديث صحيح مسلم كے اصول ميں نہيں ہے، بلكہ اس كے شواہد ميں ہے، دوسرے سہيل بن ابى صالح كى روايت ميں اضطراب ہے، تيسرے ان الفاظ كى روايت ان كے علاوه كسى نے نہيں كى ہے، اور وه اس پايہ كے راوى نہيں كہ ان كا تفرد حجت ہو، اس كا بيان ميرى شرح صحيح مسلم ميں ہے، چوتهے يہ حديث مطلق نہيں، بلكہ اس كا تعلق ايك خاص واقعہ سے ہے، آپ نے جب بنى قريظ پر كار روائى كا اراده كيا تو يہ ارشاد فرمايا: " إني راكب غدا إلى اليهود فلا تبدؤوهم بالسلام، فإذا سلموا عليكم فقولوا: وعليكم" (مسند احمد، سں ابن ماجه، الأدب المفرد وغيره)، اسى تفصيل سے يہ حديث مختلف صحابۂ كرام رضي الله عنهم نے روايت كى ہے۔
دوسرى قسم ان غير مسلموں كى ہے جنہيں ہم دعوت دينے كے لئے مامور ہيں، اس قسم ميں مسلم ممالك ميں رہنے والے غير مسلم داخل ہيں، اور وه غير مسلم بهى جو اپنے ملكوں ميں اكثريت كى حيثيت سے زندگى گزار رہے ہيں، جيسے ہندوستان، چين، اور يورپ وامريكہ وغيره كے غير مسلم باشندے، ان لوگوں كو سلام كرنا، ان كے سلام كا جواب دينا درست ہے، اگر ان كى طرف سے كسى شرارت كا علم ہے تو مبہم جواب دينے ميں كوئى حرج نہيں، يا ان كے درميان سلام كا جو طريقہ رائج ہے اسے اختيار كرے بشرطيكہ اس ميں كوئى مشركانہ يا كفريہ كلمہ نہ ہو۔
مدعو قوموں سے ہمارا تعامل ان كى خير خواہى كے جذبہ سے ہو يا مسلمانوں كے مفاد كے تحفظ كى خاطر ہو، سورة الممتحنه آيت 8 ميں ہے: "لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ"، سورة النساء آيت 86 ميں الله تعالى كا ارشاد ہے "وإذا حييتم بتحية فحيوا بأحسن منها أو ردوها" يعنى جب تمہيں سلام كيا جائے تو تم اس سے بہتر جواب دو يا كم از كم جواب ميں وہى كلمات دہرادو، غير مسلموں كو سلام كرنے كى اجازت صحابه كرام اور تابعين عظام وغيرهم رضي الله عنهم كى ايك بڑى جماعت سے منقول ہے، مثلا حضرت عبد الله بن مسعود، حضرت عبد الله بن عباس، ابو امامة الباهلي، عمر بن عبد العزيز، ابراهيم نخعى، عكرمه، عامر الشعبى، اوزاعى، سفيان بن عيينه وغيره، امام طبرى نے لكها ہے: "وقد روي عن السلف أنهم كانوا يسلمون على أهل الكتاب"، وكان أبو أمامة الباهلي يسلم على كل من لقي من مسلم وذمىّ، ويقول: هي تحيةٌ لأهل ملتنا، وأمان لأهل ذمتنا، واسم من أسماء الله نفشيه بيںا، اس پر حافظ ابن عبد البر نے تبصره كرتے ہوئے لكها ہے: ومحال أن يخالف أبو أمامة السنة، لو صحت في ذلك۔
اس تعامل ميں جہاں سلام كرنے، سلام كا جواب دينے كى اجازت ہے وہيں صلہ رحمى بهى مرغوب ہے، اگر كسى نے اسلام قبول كرليا ہے اور اس كے اعزه واقارب غير مسلم ہيں تو ان كے ساتھ حسن سلوك كرنا روا بلكہ مستحسن ہے، اس كا ذكر صحيحين وغيره كى اس روايت ميں ہے جس ميں اسماء بنت ابى بكر رضي الله عنهما نے اپنى مشرك والده كے ساتھ حسن سلوك كرنے كى اجازت جاہى تو آپ ﷺ نے اجازت مرحمت فرمائى "أتتني أمى راغبة، في عهد النبي صلى الله عليه وسلم، فسألت النبي صلى الله عليه وسلم: أأصِلها؟ قال: نعم"۔
حضرت اسماء رضي الله عنہا كى اسى حديث سے مستنبط ہوتا ہے كہ غير مسلم دوستوں كو ہديہ تحفہ دينا اور ان سے ہديہ لينا بهى جائز ہے۔
حاصل يہ ہے ك مدعو قوموں يا افراد سے ہمارے تعلق كى بنياد ذاتى دنيوى مفاد كا حصول نہ ہو، بلكہ ان قوموں يا افراد كى دينى واخروى خير خواہى پيش نظر ہو، يا اس كے پيچهے مسلمانوں كى كسى مصلحت كى رعايت ملحوظ ہو۔

-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H