قسط 3: بھارت کی تقسیم اور اس کے اثرات
بھارت کی تقسیم 20ویں صدی کے سب سے اہم اور متنازعہ واقعات میں سے ایک ہے۔ یہ تقسیم صرف جغرافیائی حدود کی تبدیلی پر نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کرنے والا واقعہ تھا۔ تقسیم کے اس پیچیدہ اور دردناک باب کو سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخی حقائق، سیاسی حالات، اور اس کے نتیجے میں ہونے والے واقعات کا تفصیلی جائزہ لینا ہوگا۔
تقسیم کی بنیادی وجوہات
تقسیم کی بنیاد 19ویں صدی کے آخر اور 20ویں صدی کے اوائل میں رکھی گئی۔ اس کی چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں:
1. ہندو مسلم تناؤ: انگریزوں کی "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کی پالیسی نے ہندوستانی سماج میں ہندو مسلم کشیدگی کو بڑھاوا دیا۔ 1857 کی بغاوت کے بعد انگریزوں نے ہندوستان میں فرقہ وارانہ سیاست کو فروغ دیا، جس سے دونوں قوموں کے درمیان اختلافات بڑھتے چلے گئے۔
2. آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام (1906): آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کی بات کو تقویت دی۔ مسلم لیگ کے رہنماؤں کا موقف تھا کہ مسلمانوں کے مذہبی، سماجی اور سیاسی حقوق کا تحفظ ایک علیحدہ وطن کے قیام سے ہی ممکن ہے۔
3. 1920 کی دہائی میں فرقہ وارانہ فسادات: 1920 کی دہائی میں ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات نے دونوں قوموں کے درمیان دوری کو مزید بڑھا دیا۔ ان فسادات نے اس بات کو واضح کیا کہ دونوں قومیں ایک ساتھ پرامن طریقے سے نہیں رہ سکتیں۔
4. قرارداد پاکستان (1940): مسلم لیگ کے لاہور اجلاس میں قرارداد پاکستان پیش کی گئی، جس میں مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔ اس قرارداد نے تقسیم کی بات کو عملی شکل دی۔
تقسیم کا فیصلہ اور اس کا عمل
برطانوی حکومت نے 1946 میں کابینہ مشن پلان کے تحت ہندوستان کو متحد رکھنے کی کوشش کی، لیکن مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان اختلافات کی وجہ سے یہ پلان ناکام ہو گیا۔ 1947 میں وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان کی آزادی کا عمل مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ ماؤنٹ بیٹن نے فیصلہ کیا کہ ہندوستان کی تقسیم کے بغیر آزادی ممکن نہیں ہے۔
جون 1947 کا منصوبہ
3 جون 1947 کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم کا منصوبہ پیش کیا، جسے "3 جون پلان" کہا جاتا ہے۔ اس پلان کے مطابق:
1. ہندوستان اور پاکستان دو علیحدہ ممالک کے طور پر وجود میں آئیں گے۔
2. پنجاب اور بنگال کو تقسیم کیا جائے گا۔ ان صوبوں میں مسلم اکثریتی علاقے پاکستان اور غیر مسلم اکثریتی علاقے ہندوستان میں شامل ہوں گے۔
3. ریاست جموں و کشمیر کو اختیار دیا گیا کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک میں شامل ہو یا آزاد رہے۔
4. برطانوی حکومت 15 اگست 1947 کو ہندوستان سے اپنی رخصتی کا اعلان کرے گی۔
ریڈکلف لائن: سرحدوں کا تعین
ریڈکلف کمیشن کو پنجاب اور بنگال کی سرحدوں کا تعین کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ کمیشن کی سربراہی سر سائریل ریڈکلف کر رہے تھے، جنہوں نے جلدی میں سرحدوں کا تعین کیا۔ اس عمل میں کئی علاقے مسلم اکثریتی ہونے کے باوجود ہندوستان کو دیے گئے اور کئی ہندو اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل کیے گئے۔ اس غیر منصفانہ تقسیم نے مستقبل میں پیدا ہونے والے تنازعات کی بنیاد رکھی۔
تقسیم کے نتائج: انسانی تاریخ کا سب سے بڑا ہجرتی بحران
تقسیم کے فوری بعد لاکھوں لوگوں کو اپنی آبائی جگہیں چھوڑنی پڑیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 1 کروڑ 40 لاکھ لوگ سرحد پار کر کے دوسرے ملک میں منتقل ہوئے۔ اس ہجرت کے دوران فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے، جن میں تقریباً 10 لاکھ لوگ مارے گئے۔
ہجرت اور تشدد
1. پنجاب: پنجاب میں تقسیم کے دوران سب سے زیادہ خونریزی ہوئی۔ سکھوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان شدید فسادات ہوئے، جس میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ خواتین کی عزتوں پر حملے ہوئے، بچوں کو مار دیا گیا، اور ہزاروں خاندان اجڑ گئے۔
2. بنگال: بنگال کی تقسیم نے بھی تشدد کو جنم دیا، لیکن وہاں کے حالات پنجاب کے مقابلے میں کچھ بہتر رہے۔ بنگال میں مسلم اکثریتی مشرقی بنگال پاکستان کا حصہ بنا، جب کہ غیر مسلم اکثریتی علاقوں نے ہندوستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔
3. دہلی اور دیگر شمالی ہندوستان: دہلی اور شمالی ہندوستان کے دیگر علاقوں میں بھی ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ دہلی میں مسلمانوں کی بڑی تعداد کو پاکستان ہجرت پر مجبور کیا گیا۔
مہاجرین کے مسائل
تقسیم کے بعد لاکھوں مہاجرین نے نئے ملک میں پناہ لی۔ یہ لوگ بے یار و مددگار تھے اور انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں حکومتوں نے مہاجرین کی آبادکاری کے لیے اقدامات کیے، لیکن یہ عمل کئی سالوں تک جاری رہا۔
سیاسی اثرات
تقسیم کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کبھی دوستانہ نہ رہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشمیر کا مسئلہ سب سے بڑا تنازعہ بن گیا، جو آج تک حل طلب ہے۔
1. کشمیر کا مسئلہ: کشمیر کی ریاست نے تقسیم کے وقت دونوں ممالک میں سے کسی کے ساتھ الحاق کا فیصلہ نہیں کیا۔ اس کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 1947-48 کی جنگ ہوئی، جس کے نتیجے میں کشمیر کا ایک حصہ پاکستان کے پاس اور دوسرا ہندوستان کے پاس آ گیا۔ یہ مسئلہ آج بھی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ ہے۔
2. سرد جنگ کا دور: تقسیم کے بعد پاکستان نے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے، جب کہ ہندوستان نے غیر جانبداری کی پالیسی اپنائی۔ اس نے جنوبی ایشیا میں سرد جنگ کے دوران تنازعات کو جنم دیا۔
3. مسلم اور ہندو اقلیتوں کا مسئلہ: دونوں ممالک میں اقلیتوں کے تحفظ کا مسئلہ بھی پیدا ہوا۔ ہندوستان میں مسلم اقلیت اور پاکستان میں ہندو اقلیت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ بڑھا۔
معاشی اور سماجی اثرات
تقسیم نے ہندوستان اور پاکستان کی معیشتوں پر بھی منفی اثرات مرتب کیے۔
1. زرعی اور صنعتی نقصان: پنجاب اور بنگال جیسے اہم زرعی اور صنعتی علاقوں کی تقسیم نے دونوں ممالک کی معیشتوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ پاکستان کو زرعی وسائل ملے، جب کہ صنعتی مراکز ہندوستان کے پاس آ گئے۔
2. معاشرتی انتشار: تقسیم نے سماجی ڈھانچے کو بھی متاثر کیا۔ ہجرت کے دوران خاندانوں کے بکھرنے اور دوستوں کے جدا ہونے نے سماجی تانے بانے کو تباہ کر دیا۔ دونوں ممالک کے عوام کو نفرت اور تعصب کے بیج بوئے گئے، جس نے فرقہ وارانہ فسادات کی بنیاد رکھی۔
3. تعلیمی اور ثقافتی اثرات: تقسیم نے تعلیمی اور ثقافتی اداروں کو بھی متاثر کیا۔ کئی اہم تعلیمی ادارے تقسیم کے بعد دونوں ممالک میں بٹ گئے۔ مثال کے طور پر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستان میں رہی، جب کہ اسلامیہ کالج لاہور پاکستان کے حصے میں آیا۔
نفسیاتی اثرات
تقسیم کے نفسیاتی اثرات بھی انتہائی گہرے تھے۔ لاکھوں لوگ اپنے گھر بار، دوستوں اور خاندان سے بچھڑ گئے، جس نے ان کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالا۔ دونوں ممالک کے عوام میں خوف، غم، اور نفرت کے جذبات پیدا ہوئے، جو نسلوں تک جاری رہے۔
نتیجہ: تقسیم کا دائمی اثر
بھارت کی تقسیم ایک ایسا واقعہ ہے جس کے اثرات آج تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ یہ واقعہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ سیاست اور مذہب کے نام پر کیے گئے فیصلے کس طرح لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی، جنگیں، اور فرقہ وارانہ فسادات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ زخم آج بھی بھرے نہیں ہیں۔
آج ہمیں اس تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ مذہب، قومیت، اور فرقہ واریت کے نام پر عوام کو تقسیم کرنے کے بجائے انہیں متحد رکھنے کے لیے کوششیں کی جائیں۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ امن، ہم آہنگی، اور بھائی چارے کے فروغ کے بغیر ایک مضبوط اور خوشحال معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا۔
تحریر: محمد شاکر
نظر ثانی: اظفر منصور
پلیٹ فارم: اسلامک گیان
واٹساپ چینل جوائن کرنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں:
https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H
کتابیں اور مضامین یا آنے والی تمام تاریخی سیریز پڑھنے کے لیے اسلامک گیان ایپ ڈاؤنلوڈ کریں:
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.shakirgyan.newmadarsa.learning
-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H