Article Image

قسط 2: آزادی کے سفر میں اہم موڑ

قسط 2: آزادی کے سفر میں اہم موڑ

1857 کی بغاوت ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کا پہلا بڑا قدم تھا، مگر یہ جدوجہد صرف اسی بغاوت تک محدود نہیں رہی۔ بلکہ اس کی وجہ سے ہندوستانی قوم کی آزادی کی تحریک میں کئی اہم موڑ آئے، جن میں مختلف شخصیات، تحریکات اور واقعات نے اہم کردار ادا کیا۔ ہر دور میں مختلف گروہوں اور رہنماؤں نے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا، جو بالآخر 1947 میں آزادی کی صورت میں کامیاب ہوئی۔ آئیے اس سفر کے چند اہم موڑوں کا آغاز تاریخی جائزہ لیتے ہیں۔

1857 کی بغاوت کے بعد کا دور: ایک نئی صبح کا آغاز

1857 کی بغاوت کے بعد ہندوستان پر برطانوی حکومت کا کنٹرول اور بھی مضبوط ہو گیا۔ لیکن یہ بغاوت ہندوستانیوں کے دلوں میں آزادی کی چنگاری کو بجھا نہ سکی۔ بغاوت کی ناکامی کے بعد بھی ہندوستان کے مختلف علاقوں میں چھوٹی بڑی مزاحمتی تحریکیں جاری رہیں۔ 1857 کے بعد کے دور میں مختلف ریاستوں میں برطانوی حکمرانی کے خلاف مقامی مزاحمتیں ہوئیں، جن میں بالخصوص بنگال، بہار، پنجاب اور جنوبی ہندوستان شامل تھے۔

انڈین نیشنل کانگریس کا قیام (1885)

یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ آزادی کی تحریک کا باقاعدہ آغاز 1885 میں انڈین نیشنل کانگریس کے قیام کے ساتھ ہوا۔ یہ تنظیم پہلے پہل ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقے کی نمائندگی کرتی تھی اور اس کا مقصد برطانوی حکومت سے مطالبات پیش کرنا تھا۔ لیکن جلد ہی کانگریس نے اپنے اہداف کو وسعت دی اور مکمل آزادی کی بات کرنے لگی۔ کانگریس نے ہندوستان کے مختلف طبقات اور علاقوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا، جس نے قومی اتحاد کو فروغ دیا۔

بال گنگا دھر تلک اور 'سوراج میرا پیدائشی حق ہے' کا نعرہ

بال گنگا دھر تلک ایک مضبوط انقلابی رہنما تھے جنہوں نے کانگریس کے پلیٹ فارم سے مکمل خودمختاری کی بات کی۔ انہوں نے 'سوراج میرا پیدائشی حق ہے اور میں اسے لے کر رہوں گا' کا نعرہ دیا، جو بعد میں ایک قومی تحریک بن گئی۔ تلک نے لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے لڑنے کا جذبہ دیا اور انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں عوام کو متحرک کیا۔

خلافت تحریک (1919-1924)

خلافت تحریک کا آغاز اس وقت ہوا جب برطانوی حکومت نے ترکی کی خلافت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ یہ تحریک بنیادی طور پر مسلمانوں کی حمایت میں شروع کی گئی تھی، لیکن اس نے ہندوستان کی آزادی کی تحریک کو بھی تقویت دی۔ خلافت تحریک کے دوران مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر برطانوی حکومت کے خلاف جدوجہد کی، جس نے قومی یکجہتی کو فروغ دیا۔

عدم تعاون تحریک (1920-1922)

عدم تعاون تحریک کا آغاز مہاتما گاندھی کی قیادت میں ہوا، جس کا مقصد برطانوی حکومت کے ساتھ ہر قسم کے تعاون سے انکار کرنا تھا۔ گاندھی جی نے عوام سے اپیل کی کہ وہ برطانوی حکام کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون نہ کریں، چاہے وہ ملازمت ہو، تعلیم ہو، یا کاروبار ہو۔ اس تحریک نے برطانوی حکومت کو اقتصادی اور سیاسی طور پر کمزور کیا اور عوام میں آزادی کی تحریک کو مضبوط کیا۔

مولانا حسین احمد مدنی اور جمعیت علماء ہند

مولانا حسین احمد مدنی جمعیت علماء ہند (قائم 1919ء) کے صدر تھے، انہوں نے اس تحریک کے ذریعے انڈین نیشنل کانگریس اور خلافت تحریک کے ساتھ مل کر آزادی کی جدوجہد میں مذہبی اور قومی سطح پر مسلمانوں کو متحرک کیا۔ مولانا مدنی نے ہمیشہ ہندوستان کی وحدت کی بات کی اور مسلمانوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ مل کر برطانوی حکومت کے خلاف جدوجہد کریں۔ انہوں نے برطانوی حکام کے خلاف پرزور آواز اٹھائی اور مسلمانوں کی مذہبی آزادی کی حفاظت کے لیے جدوجہد کی۔

مولانا ابوالکلام آزاد: قومی اتحاد کے علمبردار

مولانا ابوالکلام آزاد کانگریس کے اہم رہنما اور ایک عظیم اسلامی اسکالر تھے۔ انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کو ہمیشہ اولین ترجیح دی اور آزادی کی جدوجہد میں مذہبی فرق کو کبھی حائل نہ ہونے دیا۔ مولانا آزاد نے کانگریس کے پلیٹ فارم سے برطانوی راج کے خلاف آواز اٹھائی اور لوگوں کو متحد رہنے کی تلقین کی۔ ان کی قیادت میں ہندوستانیوں نے اپنی قومی یکجہتی کو مضبوط کیا اور آزادی کی تحریک کو ایک نئی سمت دی۔

گاندھی جی اور ستیہ گرہ (1920-1942)

مہاتما گاندھی نے ستیہ گرہ (عدم تشدد) کے اصول پر عمل کرتے ہوئے آزادی کی تحریک کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ انہوں نے 1920 میں عدم تعاون تحریک کا آغاز کیا، جس کے بعد سول نافرمانی تحریک (1930) اور بھارت چھوڑو تحریک (1942) شروع کیں۔ گاندھی جی کے عدم تشدد کے اصول نے برطانوی حکومت کو مجبور کیا کہ وہ ہندوستانیوں کی بات سنے اور آخرکار ان کے مطالبات کو تسلیم کرے۔

بھگت سنگھ اور انقلابی تحریک

بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو جیسے انقلابیوں نے برطانوی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا راستہ اپنایا۔ انہوں نے لاہوری عدالت میں بم پھینکا اور ساؤنڈرز کو قتل کیا، جس کے بعد ان پر مقدمہ چلا اور انہیں پھانسی دے دی گئی۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی قربانیوں نے نوجوانوں میں آزادی کی تحریک کو مزید جوش و خروش سے بھر دیا۔

سردار ولبھ بھائی پٹیل: ہندوستان کی یکجہتی کے معمار

سردار ولبھ بھائی پٹیل کو "آئرن مین آف انڈیا" کہا جاتا ہے۔ آزادی کے بعد انہوں نے 562 سے زائد ریاستوں کو ہندوستان میں ضم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پٹیل نے نہ صرف آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا بلکہ بعد ازاں ہندوستان کو یکجا کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔

ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور دلتوں کے حقوق

ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے دلتوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کے لیے جدوجہد کی۔ وہ ہندوستان کے آئین کے معمار تھے اور انہوں نے آزادی کے بعد دلتوں کو برابر حقوق دینے کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ ان کی قیادت میں دلتوں نے آزادی کی جدوجہد میں شامل ہو کر برطانوی سامراج کے خلاف آواز اٹھائی۔

سبھاش چندر بوس اور انڈین نیشنل آرمی (INA)

سبھاش چندر بوس نے آزادی کی تحریک میں ایک نئے انداز میں حصہ لیا۔ انہوں نے انڈین نیشنل آرمی (INA) کی بنیاد رکھی اور برطانوی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ بوس کا نعرہ "تم مجھے خون دو، میں تمہیں آزادی دوں گا" آج بھی لوگوں کے دلوں میں گونجتا ہے۔ ان کی قیادت میں آئی این اے نے برطانوی حکومت کے خلاف کئی اہم لڑائیاں لڑیں اور آزادی کی تحریک میں ایک نئی جان ڈالی۔

خواتین کا کردار: آزادی کی تحریک میں خواتین کی شمولیت

آزادی کی تحریک میں خواتین کا کردار بھی ناقابل فراموش ہے۔ سروجنی نائیڈو، کملا نہرو، ارونا آصف علی اور دیگر خواتین رہنماؤں نے آزادی کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا۔ انہوں نے نہ صرف جلسے جلوسوں میں شرکت کی بلکہ برطانوی حکومت کے خلاف تحریکوں کی قیادت بھی کی۔ ان خواتین کی قربانیوں نے آزادی کی تحریک کو مزید مضبوط کیا اور لوگوں کو حوصلہ دیا کہ وہ اپنی آزادی کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہ کریں۔

آزادی کی تحریک کا نتیجہ اور آخری موڑ

آزادی کی تحریک کے دوران مختلف طبقات، مذہبی گروہوں، اور تنظیموں کی جانب سے کی گئی کوششوں نے بالآخر 15 اگست 1947 کو ہندوستان کو آزادی دلائی۔ لیکن یہ آزادی ایک طویل اور مشکل جدوجہد کا نتیجہ تھی، جس میں بے شمار لوگوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ اس جدوجہد کا ہر موڑ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ آزادی ایک قیمتی نعمت ہے جس کے لیے اتحاد، قربانی اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔

---
نتیجہ

یہ قسط ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کے مختلف پہلوؤں اور اہم موڑوں پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس میں ہر طبقے اور مذہب کے لوگوں کی قربانیوں اور خدمات کا ذکر کیا گیا ہے، جو آزادی کی تحریک کا حصہ تھے۔ اس جدوجہد نے ہمیں یہ سبق دیا کہ جب ہم اپنے مشترکہ مقصد کے لیے متحد ہوتے ہیں تو ہم بڑی سے بڑی طاقت کے خلاف بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔

یہ مضمون اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک صرف چند لوگوں کی نہیں بلکہ پورے ملک کی مشترکہ جدوجہد تھی، جس میں ہر طبقے اور ہر مذہب کے لوگوں نے اپنا حصہ ڈالا۔ آج ہمیں اس جدوجہد کو یاد کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی آزادی کی حفاظت کریں گے اور ملک کی ترقی کے لیے مل جل کر کام کریں گے۔

تفصیل کے لیے تحریک آزادی اور مسلمان (اسیر ادروی) کا مطالعہ کرنا چاہئے۔

تحریر: محمد شاکر
نظر ثانی: اظفر منصور
پلیٹ فارم: اسلامک گیان

واٹساپ چینل جوائن کرنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں:
https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H

کتابیں اور مضامین یا آنے والی تمام تاریخی سیریز پڑھنے کے لیے اسلامک گیان ایپ ڈاؤنلوڈ کریں:
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.shakirgyan.newmadarsa.learning

-----------------------
اب آپ اسلامک گِیان کو واٹس ایپ پر بھی فالو کر سکتے ہیں، جہاں آپ کو روزانہ اسلامی مضامین اور حالات حاضرہ سے متعلق خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے چینل کو فالو کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://whatsapp.com/channel/0029VaT5KTW23n3arm5Fjr3H